بلوغ المرام - حدیث 305

كِتَابُ الصَّلَاةِ بَابُ صَلَاةِ التَّطَوُّعِ صحيح وَعَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ - رضي الله عنه - قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - يُوتِرُ بِـ {سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى}، وَ {قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ}، وَ {قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ}. رَوَاهُ أَحْمَدُ، وَأَبُو دَاوُدَ، وَالنَّسَائِيُّ. وَزَادَ: وَلَا يُسَلِّمُ إِلَّا فِي آخِرِهِنَّ. وَلِأَبِي دَاوُدَ، وَالتِّرْمِذِيِّ نَحْوُهُ عَنْ عَائِشَةَ وَفِيهِ: كُلَّ سُورَةٍ فِي رَكْعَةٍ، وَفِي الْأَخِيرَةِ: {قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ}، وَالْمُعَوِّذَتَيْنِ.

ترجمہ - حدیث 305

کتاب: نماز سے متعلق احکام و مسائل باب: نفل نماز کا بیان حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (تین رکعات) وتر میں بالترتیب ﴿ سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلٰی ﴾‘ ﴿ قُلْ یٰٓاَیُّھَا الْکٰفِرُوْنَ ﴾ اور ﴿قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ ﴾ پڑھتے تھے۔ (اسے احمد‘ ابوداود اور نسائی نے روایت کیا ہے۔) اور نسائی نے اتنا اضافہ بھی نقل کیا ہے: سلام آخری رکعت ہی میں پھیرتے تھے۔ ابوداود اور ترمذی نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے اسی طرح نقل کیا ہے اور اس روایت میں ہے کہ ہر رکعت میں ایک سورت تلاوت فرماتے تھے اور آخری رکعت میں ﴿ قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ ﴾ اور مُعَوَّذَتَیْن پڑھتے تھے۔
تشریح : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تین وتر ادا فرمایا کرتے تھے۔ ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ کے ساتھ دوسری سورت بھی پڑھتے تھے۔ لیکن اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ تین وتر دو تشہد سے پڑھتے تھے۔ اگر احناف نے ایسی احادیث سے استدلال کیا ہے تو یہ استدلال درست نہیں ہے۔ راوئ حدیث: [حضرت ابی بن کعب] ابومنذر ان کی کنیت ہے۔ انصار کے قبیلہ ٔخزرج کی شاخ نجار سے ہونے کی وجہ سے انصاری‘ نجاری اور خزرجی کہلائے۔ قراء کے سربراہ تھے اسی وجہ سے سید القراء کے لقب سے مشہور ہوئے۔ کاتبین وحی میں سے تھے اور ان خوش قسمت لوگوں میں سے تھے جنھوں نے جمع قرآن کا شرف پایا۔ رسول اللہ کے عہد زریں میں فتویٰ بھی دیا کرتے تھے۔ بیعت عقبہ ثانیہ میں شریک تھے۔ بدر اور بعد کے غزوات میں شریک رہے۔ ان کی وفات کے سن میں اختلاف ہے۔ ۱۹‘ ۲۰‘ ۲۲ یا ۳۰‘ ۳۲‘ ۳۳ ہجری میں سے کسی سال میں وفات پائی۔ واللّٰہ أعلم بالصواب۔
تخریج : أخرجه أبوداود، الصلاة، باب ما يقرأ في الوتر، حديث:1423، والنسائي، قيام الليل، حديث:1700، وأحمد:3 /406، 407، و5 /123، وحديث عائشة أخرجه أبوداود، الصلاة، حديث:1424، والترمذي، الوتر، حديث:463 وهو حديث حسن. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تین وتر ادا فرمایا کرتے تھے۔ ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ کے ساتھ دوسری سورت بھی پڑھتے تھے۔ لیکن اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ تین وتر دو تشہد سے پڑھتے تھے۔ اگر احناف نے ایسی احادیث سے استدلال کیا ہے تو یہ استدلال درست نہیں ہے۔ راوئ حدیث: [حضرت ابی بن کعب] ابومنذر ان کی کنیت ہے۔ انصار کے قبیلہ ٔخزرج کی شاخ نجار سے ہونے کی وجہ سے انصاری‘ نجاری اور خزرجی کہلائے۔ قراء کے سربراہ تھے اسی وجہ سے سید القراء کے لقب سے مشہور ہوئے۔ کاتبین وحی میں سے تھے اور ان خوش قسمت لوگوں میں سے تھے جنھوں نے جمع قرآن کا شرف پایا۔ رسول اللہ کے عہد زریں میں فتویٰ بھی دیا کرتے تھے۔ بیعت عقبہ ثانیہ میں شریک تھے۔ بدر اور بعد کے غزوات میں شریک رہے۔ ان کی وفات کے سن میں اختلاف ہے۔ ۱۹‘ ۲۰‘ ۲۲ یا ۳۰‘ ۳۲‘ ۳۳ ہجری میں سے کسی سال میں وفات پائی۔ واللّٰہ أعلم بالصواب۔