بلوغ المرام - حدیث 300

كِتَابُ الصَّلَاةِ بَابُ صَلَاةِ التَّطَوُّعِ صحيح وَعَنْهَا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: مِنْ كُلِّ اللَّيْلِ قَدْ أَوْتَرَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - فَانْتَهَى وِتْرُهُ إِلَى السَّحَرِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِمَا.

ترجمہ - حدیث 300

کتاب: نماز سے متعلق احکام و مسائل باب: نفل نماز کا بیان حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ہی سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے ہر حصے میں وتر پڑھا کرتے تھے اور آپ کا وتر پڑھنا سحر تک بھی پہنچا۔ (بخاری و مسلم)
تشریح : 1. اس حدیث سے ثابت ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وتر رات کے شروع‘ درمیان اور آخری حصے میں بھی پڑھے ہیں۔ 2. وتروں کا وقت عشاء کی نماز کے بعد سے شروع ہو کر طلوع فجر تک رہتا ہے۔ جو لوگ نماز تہجد کے عادی ہوں انھیں وتر رات کے آخری حصے میں پڑھنے چاہییں اور جو سحری کے وقت اٹھ نہ سکتے ہوں وہ نماز عشاء کے بعد پڑھیں۔ 3.کسی مجبوری اور عذر کی وجہ سے اگر وقت پر وتر نہ پڑھے جا سکیں تو فجر کی جماعت کھڑی ہونے تک انھیں پڑھ لے۔ ہاں‘ اگر سو جائے یا اسے یاد ہی نہ رہے تو جس وقت بیدار ہو یا جس وقت یاد آئے، پڑھ لے کیونکہ مکروہ اوقات میں قضا شدہ نماز کی قضا ادا کرنا جائز ہے۔ ایک دوسری رائے اس سلسلے میں یہ ہے کہ اگر وتر اپنے وقت پر نہ پڑھے جا سکیں تو پھر انھیں پڑھنے کی ضرورت ہی نہیں ہے‘ اس موقف کی تائید میں بھی بعض روایات آتی ہیں لیکن بعض علماء کے نزدیک یہ حکم ان لوگوں کے لیے ہے جو عمداً وتر چھوڑ دیں۔ دیکھیے: (حاشیہ ترمذي‘ أحمد محمد شاکر:۲ /۳۳۳) نیز بعض روایات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ عمل بھی بیان ہوا ہے کہ اگر کبھی نیند یا بیماری کی وجہ سے آپ کا قیام اللیل رہ جاتا تو آپ سورج نکلنے کے بعد بارہ (۱۲) رکعت پڑھتے۔ دیکھیے: (صحیح مسلم‘ صلاۃ المسافرین‘ حدیث:۷۴۶) اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے اکثر علماء کی رائے یہ ہے کہ جس کے وتر رہ جائیں تو وہ اس کی قضا جفت شکل میں دے‘ یعنی ایک وتر کی جگہ دو رکعت اور تین وتر کی جگہ چار رکعات پڑھے۔ لیکن ہمارے خیال میں ایسا اس شخص کے لیے ضروری ہو گا جو نماز تہجد کا عادی ہو ‘ عام شخص کے لیے وتروں کی قضا ادا کرنا‘ وتر ہی کی صورت میں مناسب معلوم ہوتا ہے۔ واللّٰہ أعلم۔
تخریج : أخرجه البخاري، الوتر، باب ساعات الوتر، حديث:996، ومسلم، صلاة المسافرين، باب صلاة الليل، حديث:745. 1. اس حدیث سے ثابت ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وتر رات کے شروع‘ درمیان اور آخری حصے میں بھی پڑھے ہیں۔ 2. وتروں کا وقت عشاء کی نماز کے بعد سے شروع ہو کر طلوع فجر تک رہتا ہے۔ جو لوگ نماز تہجد کے عادی ہوں انھیں وتر رات کے آخری حصے میں پڑھنے چاہییں اور جو سحری کے وقت اٹھ نہ سکتے ہوں وہ نماز عشاء کے بعد پڑھیں۔ 3.کسی مجبوری اور عذر کی وجہ سے اگر وقت پر وتر نہ پڑھے جا سکیں تو فجر کی جماعت کھڑی ہونے تک انھیں پڑھ لے۔ ہاں‘ اگر سو جائے یا اسے یاد ہی نہ رہے تو جس وقت بیدار ہو یا جس وقت یاد آئے، پڑھ لے کیونکہ مکروہ اوقات میں قضا شدہ نماز کی قضا ادا کرنا جائز ہے۔ ایک دوسری رائے اس سلسلے میں یہ ہے کہ اگر وتر اپنے وقت پر نہ پڑھے جا سکیں تو پھر انھیں پڑھنے کی ضرورت ہی نہیں ہے‘ اس موقف کی تائید میں بھی بعض روایات آتی ہیں لیکن بعض علماء کے نزدیک یہ حکم ان لوگوں کے لیے ہے جو عمداً وتر چھوڑ دیں۔ دیکھیے: (حاشیہ ترمذي‘ أحمد محمد شاکر:۲ /۳۳۳) نیز بعض روایات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ عمل بھی بیان ہوا ہے کہ اگر کبھی نیند یا بیماری کی وجہ سے آپ کا قیام اللیل رہ جاتا تو آپ سورج نکلنے کے بعد بارہ (۱۲) رکعت پڑھتے۔ دیکھیے: (صحیح مسلم‘ صلاۃ المسافرین‘ حدیث:۷۴۶) اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے اکثر علماء کی رائے یہ ہے کہ جس کے وتر رہ جائیں تو وہ اس کی قضا جفت شکل میں دے‘ یعنی ایک وتر کی جگہ دو رکعت اور تین وتر کی جگہ چار رکعات پڑھے۔ لیکن ہمارے خیال میں ایسا اس شخص کے لیے ضروری ہو گا جو نماز تہجد کا عادی ہو ‘ عام شخص کے لیے وتروں کی قضا ادا کرنا‘ وتر ہی کی صورت میں مناسب معلوم ہوتا ہے۔ واللّٰہ أعلم۔