بلوغ المرام - حدیث 298

كِتَابُ الصَّلَاةِ بَابُ صَلَاةِ التَّطَوُّعِ صحيح وَعَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: [مَا] كَانَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - يَزِيدُ فِي رَمَضَانَ وَلَا فِي غَيْرِهِ عَلَى إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً، يُصَلِّي أَرْبَعًا، فَلَا تَسْأَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ، ثُمَّ يُصَلِّي أَرْبَعًا، فَلَا تَسْأَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ، ثُمَّ يُصَلِّي ثَلَاثًا. قَالَتْ عَائِشَةُ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَتَنَامُ قَبْلَ أَنْ تُوتِرَ? قَالَ: ((يَا عَائِشَةُ، إِنَّ عَيْنَيَّ تَنَامَانِ وَلَا يَنَامُ قَلْبِي)). مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ. وَفِي رِوَايَةٍ لَهُمَا عَنْهَا: كَانَ يُصَلِّي مِنَ اللَّيْلِ عَشْرَ رَكَعَاتٍ، وَيُوتِرُ بِسَجْدَةٍ، وَيَرْكَعُ رَكْعَتَيْ الْفَجْرِ، فَتِلْكَ ثَلَاثُ عَشْرَةَ)).

ترجمہ - حدیث 298

کتاب: نماز سے متعلق احکام و مسائل باب: نفل نماز کا بیان حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعات سے زائد نہیں پڑھتے تھے۔ (پہلے) چار رکعتیں اس طرح ادا فرماتے تھے کہ ان کے حسن اور ان کی لمبائی کے بارے میں مت پوچھ‘ پھر چار رکعات ادا فرماتے بس ان کے حسن اور ان کی طوالت کے بارے میں مت پوچھ۔ پھر تین رکعتیں پڑھتے تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کیا آپ وتر ادا کرنے سے پہلے سو جاتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ’’عائشہ! میری دو آنکھیں سوتی ہیں میرا دل نہیں سوتا۔‘‘ (بخاری و مسلم) اور بخاری و مسلم میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ہی سے ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپ رات کو دس رکعتیں پڑھتے تھے اور ایک رکعت وتر پڑھتے تھے۔ اور اس کے بعد فجر کی دو رکعتیں پڑھتے۔ یہ (سب ملا کر کل) تیرہ رکعتیں ہوئیں۔
تشریح : 1.اس حدیث سے کئی مسئلے معلوم ہوتے ہیں: 1 نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا دل نہیں سوتا تھا‘ صرف آنکھیں سوتی تھیں۔ اور یہ آپ کی خصوصیت تھی بلکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہے: ’’تمام انبیاء کے دل جاگتے اور آنکھیں سوتی ہیں۔ ‘‘ (صحیح البخاري‘ المناقب‘ باب کان النبي صلی اللہ علیہ وسلم تنام عینہ ولاینام قلبہ‘ حدیث: ۳۵۷۰) 2. گہری نیند جس میں دل غافل ہو جائے‘ ناقض وضو ہے۔ 3. نماز تہجد عمدہ طریقے سے ٹھہر ٹھہر کر پڑھنی چاہیے۔ 4.ثابت ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز تراویح گیارہ رکعت ہی پڑھی ہے۔ اس سلسلے میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت قابل ترجیح ہے‘ اس لیے کہ آپ یہ نماز گھر ہی میں ادا فرمایا کرتے تھے۔ آپ کے وہ اعمال جو آپ عموماً گھر میں سرانجام دیتے تھے بالخصوص رات کے اعمال ‘ ان کی صحیح خبر اہل خانہ ہی کو ہو سکتی ہے۔ بیس رکعت تراویح کے متعلق ایک بھی صحیح حدیث نہیں ہے۔ عبد بن حمید اور طبرانی نے ابوشیبہ‘ ابراہیم بن عثمان‘ عن الحکم‘ عن مقسم‘ عن ابن عباس کے طریق سے جو روایت نقل کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیس رکعت تراویح پڑھی‘ وہ سخت ضعیف ہے کیونکہ ابوشیبہ رحمہ اللہ کے بارے میں امام احمد‘ ابن معین‘ امام بخاری‘ امام مسلم‘ ابوداود‘ ترمذی اور نسائی رحمہم اللہ سبھی کی یہ رائے ہے کہ یہ شخص ضعیف ہے۔ امام شعبہ رحمہ اللہ نے تو اسے کذاب قرار دیا ہے۔ اس کے مقابل صحیح مرفوع روایات میں آٹھ رکعت تراویح کا ذکر ہے‘ اس لیے تراویح آٹھ رکعت ہی سنت ہے۔ علامہ ابن ہمام رحمہ اللہ نے ہدایہ کی شرح فتح القدیر میں یہی کہا ہے کہ تراویح کی مسنون تعداد آٹھ رکعات ہے اور اس سے زائد مستحب اور نفل ہیں۔ اسی طرح علامہ محمد انور شاہ کاشمیری رحمہ اللہ سابق شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند نے ’’عرف الشذی‘‘ میں کہا ہے کہ یہ تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تراویح آٹھ رکعت ہی پڑھی ہے اور کسی روایت سے یہ بھی ثابت نہیں کہ آپ نے تراویح اور تہجد علیحدہ علیحدہ پڑھی ہوں۔ 5. اس حدیث کے آخری حصے سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز تہجد کی دس رکعتیں بھی پڑھی ہیں اور آخر میں ایک وتر پڑھا۔ یوں یہ کل گیارہ رکعتیں ہوئیں۔ 6. نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ آپ نے کبھی تیرہ رکعت بھی پڑھیں ہیں۔ جس میں آٹھ نفل اور پانچ وتر ہوتے یا پھر فجر کی دو سنتیں ملا کر ۱۳ رکعتیں ہوتیں۔
تخریج : أخرجه البخاري، التهجد، باب قيام النبي صلى الله عليه وسلم بالليل في رمضان وغيره، حديث:1147، ومسلم، صلاة المسافرين، باب صلاة الليل، حديث:738. 1.اس حدیث سے کئی مسئلے معلوم ہوتے ہیں: 1 نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا دل نہیں سوتا تھا‘ صرف آنکھیں سوتی تھیں۔ اور یہ آپ کی خصوصیت تھی بلکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہے: ’’تمام انبیاء کے دل جاگتے اور آنکھیں سوتی ہیں۔ ‘‘ (صحیح البخاري‘ المناقب‘ باب کان النبي صلی اللہ علیہ وسلم تنام عینہ ولاینام قلبہ‘ حدیث: ۳۵۷۰) 2. گہری نیند جس میں دل غافل ہو جائے‘ ناقض وضو ہے۔ 3. نماز تہجد عمدہ طریقے سے ٹھہر ٹھہر کر پڑھنی چاہیے۔ 4.ثابت ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز تراویح گیارہ رکعت ہی پڑھی ہے۔ اس سلسلے میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت قابل ترجیح ہے‘ اس لیے کہ آپ یہ نماز گھر ہی میں ادا فرمایا کرتے تھے۔ آپ کے وہ اعمال جو آپ عموماً گھر میں سرانجام دیتے تھے بالخصوص رات کے اعمال ‘ ان کی صحیح خبر اہل خانہ ہی کو ہو سکتی ہے۔ بیس رکعت تراویح کے متعلق ایک بھی صحیح حدیث نہیں ہے۔ عبد بن حمید اور طبرانی نے ابوشیبہ‘ ابراہیم بن عثمان‘ عن الحکم‘ عن مقسم‘ عن ابن عباس کے طریق سے جو روایت نقل کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیس رکعت تراویح پڑھی‘ وہ سخت ضعیف ہے کیونکہ ابوشیبہ رحمہ اللہ کے بارے میں امام احمد‘ ابن معین‘ امام بخاری‘ امام مسلم‘ ابوداود‘ ترمذی اور نسائی رحمہم اللہ سبھی کی یہ رائے ہے کہ یہ شخص ضعیف ہے۔ امام شعبہ رحمہ اللہ نے تو اسے کذاب قرار دیا ہے۔ اس کے مقابل صحیح مرفوع روایات میں آٹھ رکعت تراویح کا ذکر ہے‘ اس لیے تراویح آٹھ رکعت ہی سنت ہے۔ علامہ ابن ہمام رحمہ اللہ نے ہدایہ کی شرح فتح القدیر میں یہی کہا ہے کہ تراویح کی مسنون تعداد آٹھ رکعات ہے اور اس سے زائد مستحب اور نفل ہیں۔ اسی طرح علامہ محمد انور شاہ کاشمیری رحمہ اللہ سابق شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند نے ’’عرف الشذی‘‘ میں کہا ہے کہ یہ تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تراویح آٹھ رکعت ہی پڑھی ہے اور کسی روایت سے یہ بھی ثابت نہیں کہ آپ نے تراویح اور تہجد علیحدہ علیحدہ پڑھی ہوں۔ 5. اس حدیث کے آخری حصے سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز تہجد کی دس رکعتیں بھی پڑھی ہیں اور آخر میں ایک وتر پڑھا۔ یوں یہ کل گیارہ رکعتیں ہوئیں۔ 6. نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ آپ نے کبھی تیرہ رکعت بھی پڑھیں ہیں۔ جس میں آٹھ نفل اور پانچ وتر ہوتے یا پھر فجر کی دو سنتیں ملا کر ۱۳ رکعتیں ہوتیں۔