بلوغ المرام - حدیث 297

كِتَابُ الصَّلَاةِ بَابُ صَلَاةِ التَّطَوُّعِ ضعيف وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم: ((الْوِتْرُ حَقٌّ، فَمَنْ لَمْ يُوتِرْ فَلَيْسَ مِنَّا)). أَخْرَجَهُ أَبُو دَاوُدَ بِسَنَد لَيِّنٍ، وَصَحَّحَهُ الْحَاكِمُ. وَلَهُ شَاهِدٌ ضَعِيفٌ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عِنْدَ أَحْمَدَ.

ترجمہ - حدیث 297

کتاب: نماز سے متعلق احکام و مسائل باب: نفل نماز کا بیان حضرت عبداللہ رحمہ اللہ اپنے والد حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’وتر برحق ہے۔ جس نے وتر نہ پڑھے اس کا ہم سے کوئی تعلق نہیں۔‘‘ (اسے ابوداود نے کمزور سند کے ساتھ نقل کیا ہے اور حاکم نے صحیح کہا ہے۔ مسند احمد میں اس کا ایک شاہد بھی ہے جو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے مگر وہ ضعیف ہے۔)
تشریح : ہمارے فاضل محقق اور حضرت شیخ البانی رحمہ اللہ نے بھی اس روایت کو ضعیف ہی قرار دیا ہے لیکن الموسوعۃ الحدیثیہ کے محققین نے اسے دیگر شواہد کی بنا پر حسن لغیرہ قرار دیا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعۃ الحدیثیۃ مسند الإمام أحمد:۱۵ / ۴۴۷‘ و ۳۸ / ۱۲۷‘ ۱۲۸) بہرحال مذکورہ حدیث قابل حجت اور حسن ہونے کے باوجود وتروں کے وجوب پر دلالت نہیں کرتی بلکہ اس حدیث میں مذکور الفاظ سے وتروں کی اہمیت اور تاکید ہی ثابت ہوتی ہے‘ لہٰذا راجح موقف یہی ہے کہ اس حدیث کو تاکید پر محمول کر لیا جائے اور جمہور کے موقف کو اختیار کیا جائے کہ وتر سنت ہیں واجب نہیں جیسا کہ تفصیل حدیث : ۲۹۳ میں گزر چکی ہے۔ راوئ حدیث: [عبداللہ بن بریدہ] ان کی کنیت ابوسہل ہے۔ مرو میں منصب قضاء پر فائز رہے۔ مشاہیر اور ثقہ تابعین میں شمار کیے گئے۔ تیسرے طبقہ کے مشاہیر میں سے تھے۔ ۱۱۵ ہجری میں مرو ہی میں فوت ہوئے۔ان کے باپ حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ کے حالات پیچھے گزر چکے ہیں۔
تخریج : أخرجه أبوداود، الصلاة، باب فيمن لم يوتر، حديث:1419، والحاكم:1 /305.* أبو المنيب حسن الحديث في غير ما أنكر عليه وهذا الحديث مما أنكر عليه، وحديث أبي هريرة أخرجه أحمد:2 /443، وسنده ضعيف جدًا، فيه خليل بن مرة وهو منكر الحديث كما قال البخاري. ہمارے فاضل محقق اور حضرت شیخ البانی رحمہ اللہ نے بھی اس روایت کو ضعیف ہی قرار دیا ہے لیکن الموسوعۃ الحدیثیہ کے محققین نے اسے دیگر شواہد کی بنا پر حسن لغیرہ قرار دیا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعۃ الحدیثیۃ مسند الإمام أحمد:۱۵ / ۴۴۷‘ و ۳۸ / ۱۲۷‘ ۱۲۸) بہرحال مذکورہ حدیث قابل حجت اور حسن ہونے کے باوجود وتروں کے وجوب پر دلالت نہیں کرتی بلکہ اس حدیث میں مذکور الفاظ سے وتروں کی اہمیت اور تاکید ہی ثابت ہوتی ہے‘ لہٰذا راجح موقف یہی ہے کہ اس حدیث کو تاکید پر محمول کر لیا جائے اور جمہور کے موقف کو اختیار کیا جائے کہ وتر سنت ہیں واجب نہیں جیسا کہ تفصیل حدیث : ۲۹۳ میں گزر چکی ہے۔ راوئ حدیث: [عبداللہ بن بریدہ] ان کی کنیت ابوسہل ہے۔ مرو میں منصب قضاء پر فائز رہے۔ مشاہیر اور ثقہ تابعین میں شمار کیے گئے۔ تیسرے طبقہ کے مشاہیر میں سے تھے۔ ۱۱۵ ہجری میں مرو ہی میں فوت ہوئے۔ان کے باپ حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ کے حالات پیچھے گزر چکے ہیں۔