كِتَابُ الصَّلَاةِ بَابُ صَلَاةِ التَّطَوُّعِ صحيح وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا - قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم: ((صَلَاةُ اللَّيْلِ مَثْنَى مَثْنَى، فَإِذَا خَشِيَ أَحَدُكُمْ الصُّبْحِ صَلَّى رَكْعَةً وَاحِدَةً، تُوتِرُ لَهُ مَا قَدْ صَلَّى)). مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ. وَلِلْخَمْسَةِ - وَصَحَّحَهُ ابْنِ حِبَّانَ: ((صَلَاةُ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ مَثْنَى مَثْنَى)). وَقَالَ النَّسَائِيُّ: ((هَذَا خَطَأٌ)).
کتاب: نماز سے متعلق احکام و مسائل
باب: نفل نماز کا بیان
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’رات کی نماز دو دو رکعتیں ہے اور جب تم میں سے کسی کو صبح کے طلوع ہونے کا خدشہ لاحق ہونے لگے تو (آخر میں) ایک رکعت پڑھ لے۔ یہ پہلے پڑھی ہوئی ایک رکعت اس کی ساری نماز کو وتر (طاق) بنا دے گی۔‘‘ (بخاری و مسلم) اور پانچوں کی روایت کے الفاظ اس طرح ہیں: ’’دن اور رات کی نماز دو دو رکعت ہے۔‘‘ اسے ابن حبان نے صحیح قرار دیا ہے‘ البتہ امام نسائی نے کہا ہے کہ یہ خطا ہے۔
تشریح :
1. اس حدیث سے ایک تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ رات کے اوقات میں پڑھی جانے والی نماز کو دو دو رکعتوں کی صورت میں پڑھنا چاہیے اور دو کے بعد سلام پھیرنا چاہیے۔ امت کی غالب اکثریت نے اسی کو تسلیم کیا ہے۔2. دوسری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ وتر کی نماز کی تعداد ایک بھی ثابت ہے بلکہ بعض نے تو یہ کہا ہے کہ وتر کی نماز کی تعداد ایک ہی ہے۔ لیکن احادیث سے تین‘ پانچ‘ سات‘ نو اور گیارہ تک کا ثبوت بھی ملتا ہے۔ 3.جہاں تک امام نسائی رحمہ اللہ کے لفظ اَلنَّھَار کو خطا کہنے کا تعلق ہے‘ ان کی یہ رائے محل نظر ہے‘ اس لیے کہ امام بخاری‘ امام ابن حبان اور امام بیہقی رحمہم اللہ وغیرہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے اور علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ میں اسے ذکر کیا ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ دن ہو یا رات نوافل دو دو کی تعداد میں پڑھنا زیادہ ثواب کا موجب ہے کیونکہ دو دو رکعتوں کے پڑھنے کی صورت میں درود اور بعد از درود دعائیں زیادہ مرتبہ پڑھی جائیں گی‘ اس لیے ثواب بھی زیادہ ہوگا۔ ویسے دن کو دو دو کر کے پڑھے یا چار چار دونوں طرح جائز ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دن کو چار رکعتیں ایک سلام سے پڑھنا بھی ثابت ہے۔ (سنن أبي داود‘ التطوع‘ حدیث:۱۲۷۰‘ شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو حسن قرار دیا ہے۔) 4. ایک رکعت وتر پڑھنے کی صورت میں تو تشہد ایک ہی مرتبہ پڑھا جائے گا‘ اگر تین یا اس سے زائد پڑھے تو کیا صورت ہوگی؟ احمد‘ نسائی‘ بیہقی اور حاکم وغیرہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے جو روایت نقل کی ہے اس میں تو صاف طور پر بیان ہوا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب تین وتر پڑھتے تھے تو صرف آخری رکعت ہی میں تشہد پڑھا کرتے تھے‘ اس لیے صحیح یہ ہے کہ تین رکعت وتر پڑھے جائیں تو درمیان میں تشہد نہ پڑھا جائے۔ مگر احناف رات کے وتروں کو مغرب کی تین رکعات پر قیاس کر کے دو مرتبہ تشہد پڑھنے کے قائل ہیں‘ حالانکہ وتروں کو مغرب کی نماز کی طرح پڑھنے کی ممانعت حدیث میں صراحتاً وارد ہے۔ دیکھیے: (سنن الدارقطني:۲ / ۲۵۔ ۲۷‘ وابن حبان‘ حدیث:۶۸۰)
تخریج :
أخرجه البخاري، التهجد، باب كيف صلاة النبي صلى الله عليه وسلم....، حديث: 1137، ومسلم، صلاة المسافرين، باب صلاة الليل مثنى مثنى، حديث:749، وحديث "صلاة الليل والنهار مثنى مثنى" أخرجه أبوداود، التطوع، حديث:1295، والترمذي، الجمعة، حديث:597، وابن ماجه، إقامة الصلوات، حديث:1322، والنسائي، قيام الليل، حديث:1667، وأحمد:2 /26، 51، وابن حبان (الإحسان):4 /86، حديث:2473 وهو حديث حسن.
1. اس حدیث سے ایک تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ رات کے اوقات میں پڑھی جانے والی نماز کو دو دو رکعتوں کی صورت میں پڑھنا چاہیے اور دو کے بعد سلام پھیرنا چاہیے۔ امت کی غالب اکثریت نے اسی کو تسلیم کیا ہے۔2. دوسری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ وتر کی نماز کی تعداد ایک بھی ثابت ہے بلکہ بعض نے تو یہ کہا ہے کہ وتر کی نماز کی تعداد ایک ہی ہے۔ لیکن احادیث سے تین‘ پانچ‘ سات‘ نو اور گیارہ تک کا ثبوت بھی ملتا ہے۔ 3.جہاں تک امام نسائی رحمہ اللہ کے لفظ اَلنَّھَار کو خطا کہنے کا تعلق ہے‘ ان کی یہ رائے محل نظر ہے‘ اس لیے کہ امام بخاری‘ امام ابن حبان اور امام بیہقی رحمہم اللہ وغیرہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے اور علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ میں اسے ذکر کیا ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ دن ہو یا رات نوافل دو دو کی تعداد میں پڑھنا زیادہ ثواب کا موجب ہے کیونکہ دو دو رکعتوں کے پڑھنے کی صورت میں درود اور بعد از درود دعائیں زیادہ مرتبہ پڑھی جائیں گی‘ اس لیے ثواب بھی زیادہ ہوگا۔ ویسے دن کو دو دو کر کے پڑھے یا چار چار دونوں طرح جائز ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دن کو چار رکعتیں ایک سلام سے پڑھنا بھی ثابت ہے۔ (سنن أبي داود‘ التطوع‘ حدیث:۱۲۷۰‘ شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو حسن قرار دیا ہے۔) 4. ایک رکعت وتر پڑھنے کی صورت میں تو تشہد ایک ہی مرتبہ پڑھا جائے گا‘ اگر تین یا اس سے زائد پڑھے تو کیا صورت ہوگی؟ احمد‘ نسائی‘ بیہقی اور حاکم وغیرہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے جو روایت نقل کی ہے اس میں تو صاف طور پر بیان ہوا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب تین وتر پڑھتے تھے تو صرف آخری رکعت ہی میں تشہد پڑھا کرتے تھے‘ اس لیے صحیح یہ ہے کہ تین رکعت وتر پڑھے جائیں تو درمیان میں تشہد نہ پڑھا جائے۔ مگر احناف رات کے وتروں کو مغرب کی تین رکعات پر قیاس کر کے دو مرتبہ تشہد پڑھنے کے قائل ہیں‘ حالانکہ وتروں کو مغرب کی نماز کی طرح پڑھنے کی ممانعت حدیث میں صراحتاً وارد ہے۔ دیکھیے: (سنن الدارقطني:۲ / ۲۵۔ ۲۷‘ وابن حبان‘ حدیث:۶۸۰)