كِتَابُ الصَّلَاةِ بَابُ صَلَاةِ التَّطَوُّعِ صحيح وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ الْمُزَنِيِّ - رضي الله عنه - عَنِ النَّبِيِّ - صلى الله عليه وسلم - قَالَ: ((صَلُّوا قَبْلَ الْمَغْرِبِ، صَلُّوا قَبْلَ الْمَغْرِبِ))، ثُمَّ قَالَ فِي الثَّالِثَةِ: ((لِمَنْ شَاءَ)) كَرَاهِيَةَ أَنْ يَتَّخِذَهَا النَّاسُ سُنَّةً. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ. وَفِي رِوَايَةِ ابْنِ حِبَّانَ: أَنَّ النَّبِيَّ - صلى الله عليه وسلم - صَلَّى قَبْلَ الْمَغْرِبِ رَكْعَتَيْنِ. وَلِمُسْلِمٍ عَنْ أَنَسٍ [قَالَ]: كُنَّا نُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ بَعْدَ غُرُوبِ الشَّمْسِ، فَكَانَ - صلى الله عليه وسلم - يَرَانَا، فَلَمْ يَأْمُرْنَا وَلَمْ يَنْهَانَا.
کتاب: نماز سے متعلق احکام و مسائل
باب: نفل نماز کا بیان
حضرت عبداللہ بن مغفل مزنی رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’مغرب سے پہلے نماز پڑھو۔مغرب سے پہلے نماز پڑھو۔‘‘ پھر تیسری مرتبہ کہتے ہوئے فرمایا: ’’یہ حکم اس شخص کے لیے ہے جو پڑھنا چاہے۔‘‘ آپ نے یہ اس اندیشے کے پیش نظر فرمایا کہ لوگ اسے سنت نہ بنا لیں۔ (اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔) ابن حبان کی ایک روایت میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مغرب سے پہلے دو رکعت ادا فرمائیں۔ اور مسلم میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم غروب آفتاب کے بعد (فرض نماز سے پہلے) دو رکعتیں پڑھا کرتے تھے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں دیکھ رہے ہوتے تھے‘ نہ تو آپ نے ہمیں ان کا حکم دیا اور نہ منع فرمایا۔
تشریح :
مغرب کے فرضوں سے پہلے دوگانہ پڑھنا سنن زائدہ میں شمار ہوتا ہے‘ سنن مؤکدہ میں نہیں۔ ان کا پڑھنا مستحب ہے‘ اس لیے یہ پڑھنی چاہییں۔ راوئ حدیث: [عبداللہ بن مغفل مزنی] مزینہ قبیلے سے تعلق رکھنے کی بنا پر مزنی (میم پر ضمہ اور زا پر فتحہ ہے) کہلائے۔ مغفل میں ’’میم‘‘ پر ضمہ ’’غین‘‘ پر فتحہ اور ’’فا‘‘ پر فتحہ اور تشدید ہے۔ یہ اصحاب شجرہ میں سے ہیں۔ پہلے مدینہ میں رہائش رکھی‘ بعدازاں مصر میں سکونت اختیار کر لی۔ یہ ان دس اصحاب میں شامل تھے جن کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اہل بصرہ کو تعلیم دینے کے لیے بھیجا۔ ۶۰ ہجری میں وفات پائی۔
تخریج :
أخرجه البخاري، التهجد، باب الصلاة قبل المغرب، حديث:1183، وابن حبان (موارد الظمآن):617، وحديث أنس أخرجه مسلم، حديث:836.
مغرب کے فرضوں سے پہلے دوگانہ پڑھنا سنن زائدہ میں شمار ہوتا ہے‘ سنن مؤکدہ میں نہیں۔ ان کا پڑھنا مستحب ہے‘ اس لیے یہ پڑھنی چاہییں۔ راوئ حدیث: [عبداللہ بن مغفل مزنی] مزینہ قبیلے سے تعلق رکھنے کی بنا پر مزنی (میم پر ضمہ اور زا پر فتحہ ہے) کہلائے۔ مغفل میں ’’میم‘‘ پر ضمہ ’’غین‘‘ پر فتحہ اور ’’فا‘‘ پر فتحہ اور تشدید ہے۔ یہ اصحاب شجرہ میں سے ہیں۔ پہلے مدینہ میں رہائش رکھی‘ بعدازاں مصر میں سکونت اختیار کر لی۔ یہ ان دس اصحاب میں شامل تھے جن کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اہل بصرہ کو تعلیم دینے کے لیے بھیجا۔ ۶۰ ہجری میں وفات پائی۔