كِتَابُ الصَّلَاةِ بَابُ سُجُودِ السَّهْوِ وَغَيْرِهِ صحيح وَعَنْ عُمَرَ - رضي الله عنه - قَالَ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا نَمُرُّ بِالسُّجُودِ فَمَنْ سَجَدَ فَقَدْ أَصَابَ، وَمَنْ لَمْ يَسْجُدْ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ. وَفِيهِ: إِنَّ اللَّهَ [تَعَالَى] لَمْ يَفْرِضْ السُّجُودَ إِلَّا أَنْ نَشَاءَ وَهُوَ فِي ((الْمُوَطَّأِ.
کتاب: نماز سے متعلق احکام و مسائل
باب: سجود سہو وغیرہ کا بیان
حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے‘ انھوں نے فرمایا: لوگو! ہم (تلاوت کے) سجدوں کے پاس سے گزرتے (ان کی آیات تلاوت کرتے) ہیں‘ چنانچہ جس نے سجدہ کیا اس نے درست کیا اور جس نے نہ کیا اس پر کوئی گناہ نہیں۔ (اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔) اور موطا میں یہ الفاظ ہیں: اللہ تعالیٰ نے سجدۂ تلاوت فرض نہیں کیا مگر ہم چاہیں تو سجدہ کریں۔
تشریح :
1. بعض نسخوں میں أَنْ نَّشَائَ جمع کے صیغے کی جگہ أَنْ یَّشَائَ سے بھی منقول ہے۔ یعنی قاری کو اختیار ہے۔ اور فرض و واجب میں اختیار نہیں دیا جاتا۔ 2. حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی موجودگی میں یہ فرمایا تھا۔ سامعین صحابہ سب خاموش رہے۔ اس سے اجماع سکوتی کا ثبوت ملتا ہے‘ نیز لَمْ یَفْرِضْ اور أَنْ یَّشَائَ بھی اس کی تائید مزید ہے۔ ائمۂ اربعہ میں سے امام مالک اور امام شافعی رحمہما اللہ کا یہی مسلک ہے‘ نیز علمائے اہلحدیث بھی سجود تلاوت کو مسنون ہی قرار دیتے ہیں مگر احناف اسے واجب کہتے ہیں۔
تخریج :
أخرجه البخاري، سجود القرآن، باب من رأى أن الله لم يوجب السجود، حديث:1077، ومالك في الموطأ:1 /206.
1. بعض نسخوں میں أَنْ نَّشَائَ جمع کے صیغے کی جگہ أَنْ یَّشَائَ سے بھی منقول ہے۔ یعنی قاری کو اختیار ہے۔ اور فرض و واجب میں اختیار نہیں دیا جاتا۔ 2. حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی موجودگی میں یہ فرمایا تھا۔ سامعین صحابہ سب خاموش رہے۔ اس سے اجماع سکوتی کا ثبوت ملتا ہے‘ نیز لَمْ یَفْرِضْ اور أَنْ یَّشَائَ بھی اس کی تائید مزید ہے۔ ائمۂ اربعہ میں سے امام مالک اور امام شافعی رحمہما اللہ کا یہی مسلک ہے‘ نیز علمائے اہلحدیث بھی سجود تلاوت کو مسنون ہی قرار دیتے ہیں مگر احناف اسے واجب کہتے ہیں۔