بلوغ المرام - حدیث 27

کِتَابُ الطَّھَارَۃِ بَابُ إِزَالَةِ النَّجَاسَةِ وَبَيَانِهَا صحيح وَعَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا; أَنَّ النَّبِيَّ - صلى الله عليه وسلم - قَالَ - فِي دَمِ الْحَيْضِ يُصِيبُ الثَّوْبَ: ((تَحُتُّهُ، ثُمَّ تَقْرُصُهُ بِالْمَاءِ، ثُمَّ تَنْضَحُهُ، ثُمَّ تُصَلِّي فِيهِ)). مُتَّفَقٌ عَلَيْه.

ترجمہ - حدیث 27

کتاب: طہارت سے متعلق احکام ومسائل باب: نجاست کا بیان اور اسے دور کرنے کے احکام ومسائل حضرت اسماء بنت ابی بکرصدیق رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حیض کے خون‘ جو کپڑے کو لگ جائے‘ کے متعلق فرمایا: ’’پہلے اسے کھرچ ڈالے‘ پھر پانی سے مل کر دھوئے‘ پھر اس پر کھلا پانی بہائے اور پھر اس میں نماز پڑھ لے۔‘‘ (بخاری و مسلم)
تشریح : 1. خون کو اولاً خوب رگڑنے کا حکم ہے تاکہ پانی کے اس میں سرایت کرنے کا راستہ بن سکے‘ پھر اسے دھونے کا حکم ہے تاکہ خون کا اثر زائل ہو جائے۔ محض دھونے سے ایسی صفائی حاصل ہونا مشکل تھی۔ 2.نضح کے لغوی معنی چھینٹے مارنے کے ہیں لیکن اگر پانی سے مل کر دھونے کے بعد وہ کپڑا مشکوک ہے تو محض چھینٹے مار لینا غیر مفید ہے‘ اس لیے کہ کپڑا اگر پاک ہے تو چھینٹے مارنے کی ضرورت ہی نہیں ہے اور اگر کپڑا پاک نہیں ہے تو صرف چھینٹے مارنے سے کپڑا پاک نہیں ہو گا‘ اس لیے اس مقام پر موقع کی مناسبت سے نضح کے معنی غسل (دھونا) کیے گئیہیں جیسا کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب میں غسل کا ذکر کیا ہے اور اس کے تحت جو حدیث نقل کی ہے وہ نضح اور غسل دونوں پر حاوی ہے۔ پس یہ حدیث ہی نضح کے معنی غسل کے لینے کی واضح دلیل ہے۔ 3. خون حیض رگڑنے اور مل کر دھونے کے باوجود اپنے اثرات اور نشانات باقی چھوڑے تو اس میں کوئی مضائقہ اور حرج نہیں۔ ایسے کپڑوں میں نماز پڑھی جا سکتی ہے جیسا کہ آنے والی حدیث اس کی تائید کرتی ہے۔ راوئ حدیث: [حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما ] حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا زوجۂ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بڑی بہن ہیں۔ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کی والدہ تھیں۔ مکہ میں ایمان لانے والے قدیم الاسلام مسلمانوں میں سے تھیں۔ مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی۔ ۷۳ ہجری میں اپنے بیٹے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کے قتل کیے جانے کے تقریباً ایک ماہ بعد مکہ مکرمہ میں وفات پائی۔ اس وقت ان کی عمر تقریباً سو برس تھی۔ ایسی پیرانہ سالی کے باوجود ان کا کوئی دانت گرا نہ عقل میں کسی قسم کا کوئی تغیر پیدا ہوا۔
تخریج : أخرجه البخاري، الوضوء، باب غسل الدم، حديث:227، ومسلم، الإيمان، باب نجاسة الدم وكيفية غسله، حديث:291. 1. خون کو اولاً خوب رگڑنے کا حکم ہے تاکہ پانی کے اس میں سرایت کرنے کا راستہ بن سکے‘ پھر اسے دھونے کا حکم ہے تاکہ خون کا اثر زائل ہو جائے۔ محض دھونے سے ایسی صفائی حاصل ہونا مشکل تھی۔ 2.نضح کے لغوی معنی چھینٹے مارنے کے ہیں لیکن اگر پانی سے مل کر دھونے کے بعد وہ کپڑا مشکوک ہے تو محض چھینٹے مار لینا غیر مفید ہے‘ اس لیے کہ کپڑا اگر پاک ہے تو چھینٹے مارنے کی ضرورت ہی نہیں ہے اور اگر کپڑا پاک نہیں ہے تو صرف چھینٹے مارنے سے کپڑا پاک نہیں ہو گا‘ اس لیے اس مقام پر موقع کی مناسبت سے نضح کے معنی غسل (دھونا) کیے گئیہیں جیسا کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب میں غسل کا ذکر کیا ہے اور اس کے تحت جو حدیث نقل کی ہے وہ نضح اور غسل دونوں پر حاوی ہے۔ پس یہ حدیث ہی نضح کے معنی غسل کے لینے کی واضح دلیل ہے۔ 3. خون حیض رگڑنے اور مل کر دھونے کے باوجود اپنے اثرات اور نشانات باقی چھوڑے تو اس میں کوئی مضائقہ اور حرج نہیں۔ ایسے کپڑوں میں نماز پڑھی جا سکتی ہے جیسا کہ آنے والی حدیث اس کی تائید کرتی ہے۔ راوئ حدیث: [حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما ] حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا زوجۂ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بڑی بہن ہیں۔ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کی والدہ تھیں۔ مکہ میں ایمان لانے والے قدیم الاسلام مسلمانوں میں سے تھیں۔ مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی۔ ۷۳ ہجری میں اپنے بیٹے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کے قتل کیے جانے کے تقریباً ایک ماہ بعد مکہ مکرمہ میں وفات پائی۔ اس وقت ان کی عمر تقریباً سو برس تھی۔ ایسی پیرانہ سالی کے باوجود ان کا کوئی دانت گرا نہ عقل میں کسی قسم کا کوئی تغیر پیدا ہوا۔