بلوغ المرام - حدیث 266

كِتَابُ الصَّلَاةِ بَابُ سُجُودِ السَّهْوِ وَغَيْرِهِ صحيح وَعَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ - رضي الله عنه - قَالَ: صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - فَلَمَّا سَلَّمَ قِيلَ لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَحَدَثَ فِي الصَّلَاةِ شَيْءٌ؟ قَالَ: ((وَمَا ذَلِكَ؟)). قَالُوا: صَلَّيْتَ كَذَا، قَالَ: فَثَنَى رِجْلَيْهِ وَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ، فَسَجَدَ سَجْدَتَيْنِ، ثُمَّ سَلَّمَ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيْنَا بِوَجْهِهِ فَقَالَ: ((إِنَّهُ لَوْ حَدَثَ فِي الصَّلَاةِ شَيْءٌ أَنْبَأْتُكُمْ بِهِ، وَلَكِنْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ أَنْسَى كَمَا تَنْسَوْنَ، فَإِذَا نَسِيتُ فَذَكِّرُونِي، وَإِذَا شَكَّ أَحَدُكُمْ فِي صَلَاتِهِ فَلْيَتَحَرَّ الصَّوَابَ، فلْيُتِمَّ عَلَيْهِ، ثُمَّ لِيَسْجُدْ سَجْدَتَيْنِ)). مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ. وَفِي رِوَايَةٍ لِلْبُخَارِيِّ: ((فَلْيُتِمَّ، ثُمَّ يُسَلِّمْ، ثُمَّ يَسْجُدْ)). وَلِمُسْلِمٍ: أَنَّ النَّبِيَّ - صلى الله عليه وسلم - سَجَدَ سَجْدَتَيْ السَّهْوِ بَعْدَ السَّلَامِ وَالْكَلَامِ. وَلِأَحْمَدَ، وَأَبِي دَاوُدَ، وَالنَّسَائِيِّ; مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ بْنِ جَعْفَرٍ مَرْفُوعًا: ((مَنْ شَكَّ فِي صَلَاتِهِ، فَلْيَسْجُدْ سَجْدَتَيْنِ بَعْدَمَا يُسَلِّمُ)). وَصَحَّحَهُ ابْنُ خُزَيْمَةَ.

ترجمہ - حدیث 266

کتاب: نماز سے متعلق احکام و مسائل باب: سجود سہو وغیرہ کا بیان حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے نماز پڑھائی۔ جب آپ نے سلام پھیرا تو آپ کی خدمت میں عرض کیا گیا: اے اللہ کے رسول! کیا نماز میں کوئی نئی چیز رونما ہوئی ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’وہ کیا ہے؟‘‘ انھوں نے عرض کیا: آپ نے تو اتنی اتنی نماز ادا فرمائی ہے۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ آپ نے اپنے دونوں پاؤں موڑے اور قبلہ رو ہو کر دو سجدے کیے‘ پھر سلام پھیرا‘ پھر ہماری جانب متوجہ ہو کر فرمایا: ’’اگر نماز میں کوئی نئی چیز پیدا ہوئی ہوتی تو میں خود تمھیں اس سے باخبر کرتا لیکن میں بھی تمھاری طرح انسان ہوں‘ اسی طرح بھول جاتا ہوں جس طرح تم لوگ بھول جاتے ہو‘ لہٰذا جب میں بھول جاؤں تو تم مجھے یاد کرا دیا کرو۔ اور جب تم میں سے کسی کو نماز میں شک واقع ہو جائے تو صحیح صورت حال یاد کرنے کی کوشش کرے‘ پھر اپنی نماز اسی بنیاد پر مکمل کر لے اور پھر دو سجدے کر لے۔‘‘ ( بخاری و مسلم)اور بخاری ہی کی ایک دوسری روایت میں ہے: (آپ نے فرمایا: ’’پہلے) نماز مکمل کرے‘ پھر سلام پھیرے اور پھر سجدے کرے۔‘‘ اور مسلم کی روایت میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدۂ سہو سلام و کلام کے بعد کیا تھا۔مسند احمد‘ ابوداود اور نسائی میں حضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہما سے مرفوع روایت ہے: ’’جس شخص کو نماز میں شک واقع ہو جائے تو اسے سلام پھیرنے کے بعد دو سجدے کرنے چاہییں۔‘‘ (اسے ابن خزیمہ نے صحیح قرار دیاہے۔)
تشریح : 1. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے [أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ] کے الفاظ اپنے لیے فرمائے ہیں۔ اس سے ان لوگوں کو اپنے نظریات و عقائد کی اصلاح کرنی چاہیے جو بشریت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منکر ہیں اور قرآنی نصوص صریحہ کی عجیب تاویل کرتے ہیں جو سراسر باطل اور لغو ہے کہ قرآن مجید میں تو منکروں کو خاموش کرانے کے لیے بشر کہا گیا ہے ورنہ درحقیقت تو وہ بشر نہیں تھے‘ بشریت کا لبادہ اوڑھ رکھا تھا۔ لیکن ان عقلمندوں سے ذرا کوئی پوچھے کہ اس حدیث میں جن لوگوں کو [أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ] کہہ کر مخاطب فرما رہے ہیں کیا وہ مسلمان نہ تھے کہ انھیں خاموش کرانا مقصود تھا‘ یا وہ اہل ایمان صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم تھے جن کی صداقت ایمانی پر قرآن خود شاہد ہے۔ 2.اس حدیث میں تَحَرِّي إِلَی الصَّوَابِ کا حکم ہے۔ تحری دراصل وہ ہے جسے حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا ہے کہ نمازی کو اگر ایک اور دو میں شبہ ہو تو ایک کو یقین سمجھے اور دو اور تین میں شک لاحق ہو تو دو رکعت کو درست قرار دے اور تین اور چار میں اگر شک پڑ جائے تو تین کو یقینی تصور کرے اور نماز سے فارغ ہو کر سلام پھیرنے سے پہلے سہو کے دو سجدے کر لے‘ نیز یہ مسئلہ بھی معلوم ہوا کہ مقتدیوں کو امام کی اتباع کرنی چاہیے‘ خواہ امام بھول ہی کیوں نہ جائے‘ البتہ بھولنے کی صورت میں مقتدی امام کو سبحان اللہ کہہ کر متنبہ کرنے کی کوشش ضرور کریں جیسا کہ دوسری احادیث میں اس کی وضاحت موجود ہے۔ راویٔ حدیث: [حضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہما ] ابوجعفر ان کی کنیت ہے۔ عبداللہ بن جعفر بن ابو طالب نام ہے۔ ان کی والدہ کا نام اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا ہے۔ ہجرت حبشہ کے دوران میں حبشہ کے مقام پر اسلام میں سب سے پہلے یہی پیدا ہوئے تھے۔ ۷ ہجری کے اوائل میں اپنے والد کے ہمراہ مدینہ واپس آئے۔ بڑے سخی‘ بہادر‘ پاک دامن اور خوش مزاج تھے۔ کثرت سے سخاوت کرنے کی وجہ سے بحر الجود (سخاوت کا سمندر) کہلاتے تھے۔ اسلام میں ان سے بڑھ کر کوئی سخی نہ تھا۔ ۸۰ برس کی عمر میں ۸۰ ہجری میں مدینہ منورہ میں فوت ہوئے۔
تخریج : أخرجه البخاري، الصلاة، باب التوجد نحو القبلة حيث كان، حديث:401 وغيره، ومسلم، المساجد، باب السهو في الصلاة، حديث:572، وحديث عبدالله بن جعفر أخرجه أبوداود، الصلاة، حديث:1033، والنسائي، السهو، حديث:1250، وأحمد:1 /205، 206، وسنده حسن، وابن خزيمة:2 /116، حديث:1033. 1. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے [أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ] کے الفاظ اپنے لیے فرمائے ہیں۔ اس سے ان لوگوں کو اپنے نظریات و عقائد کی اصلاح کرنی چاہیے جو بشریت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منکر ہیں اور قرآنی نصوص صریحہ کی عجیب تاویل کرتے ہیں جو سراسر باطل اور لغو ہے کہ قرآن مجید میں تو منکروں کو خاموش کرانے کے لیے بشر کہا گیا ہے ورنہ درحقیقت تو وہ بشر نہیں تھے‘ بشریت کا لبادہ اوڑھ رکھا تھا۔ لیکن ان عقلمندوں سے ذرا کوئی پوچھے کہ اس حدیث میں جن لوگوں کو [أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ] کہہ کر مخاطب فرما رہے ہیں کیا وہ مسلمان نہ تھے کہ انھیں خاموش کرانا مقصود تھا‘ یا وہ اہل ایمان صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم تھے جن کی صداقت ایمانی پر قرآن خود شاہد ہے۔ 2.اس حدیث میں تَحَرِّي إِلَی الصَّوَابِ کا حکم ہے۔ تحری دراصل وہ ہے جسے حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا ہے کہ نمازی کو اگر ایک اور دو میں شبہ ہو تو ایک کو یقین سمجھے اور دو اور تین میں شک لاحق ہو تو دو رکعت کو درست قرار دے اور تین اور چار میں اگر شک پڑ جائے تو تین کو یقینی تصور کرے اور نماز سے فارغ ہو کر سلام پھیرنے سے پہلے سہو کے دو سجدے کر لے‘ نیز یہ مسئلہ بھی معلوم ہوا کہ مقتدیوں کو امام کی اتباع کرنی چاہیے‘ خواہ امام بھول ہی کیوں نہ جائے‘ البتہ بھولنے کی صورت میں مقتدی امام کو سبحان اللہ کہہ کر متنبہ کرنے کی کوشش ضرور کریں جیسا کہ دوسری احادیث میں اس کی وضاحت موجود ہے۔ راویٔ حدیث: [حضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہما ] ابوجعفر ان کی کنیت ہے۔ عبداللہ بن جعفر بن ابو طالب نام ہے۔ ان کی والدہ کا نام اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا ہے۔ ہجرت حبشہ کے دوران میں حبشہ کے مقام پر اسلام میں سب سے پہلے یہی پیدا ہوئے تھے۔ ۷ ہجری کے اوائل میں اپنے والد کے ہمراہ مدینہ واپس آئے۔ بڑے سخی‘ بہادر‘ پاک دامن اور خوش مزاج تھے۔ کثرت سے سخاوت کرنے کی وجہ سے بحر الجود (سخاوت کا سمندر) کہلاتے تھے۔ اسلام میں ان سے بڑھ کر کوئی سخی نہ تھا۔ ۸۰ برس کی عمر میں ۸۰ ہجری میں مدینہ منورہ میں فوت ہوئے۔