كِتَابُ الصَّلَاةِ بَابُ سُجُودِ السَّهْوِ وَغَيْرِهِ صحيح وَعَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ - رضي الله عنه - قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم: ((إِذَا شَكَّ أَحَدُكُمْ فِي صَلَاتِهِ، فَلَمْ يَدْرِ كَمْ صَلَّى أَثْلَاثًا أَوْ أَرْبَعًا? فَلْيَطْرَحِ الشَّكَّ وَلْيَبْنِ عَلَى مَا اسْتَيْقَنَ، ثُمَّ يَسْجُدُ سَجْدَتَيْنِ قَبْلَ أَنْ يُسَلِّمَ، فَإِنْ كَانَ صَلَّى خَمْسًا شَفَعْنَ [لَهُ] (1) صَلَاتَهُ، وَإِنْ كَانَ صَلَّى تَمَامًا (2) كَانَتَا تَرْغِيمًا لِلشَّيْطَانِ)). رَوَاهُ مُسْلِمٌ.
کتاب: نماز سے متعلق احکام و مسائل
باب: سجود سہو وغیرہ کا بیان
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تم میں سے کسی کو نماز میں شک لاحق ہو جائے اور یہ معلوم نہ رہے کہ اس نے کتنی رکعتیں پڑھی ہیں‘ تین یا چار؟ تو ایسی صورت میں شک کو چھوڑ دے اور جس پر یقین ہو اس پر نماز کی بنا رکھے‘ پھر سلام پھیرنے سے پہلے سہو کے دو سجدے کر لے۔ پس اگر اس نے پانچ رکعتیں پڑھی ہوں گی تو یہ دو سجدے اس کی نماز کو جفت بنا دیں گے (ایک رکعت کے قائم مقام ہو کر اس کی نماز کو چھ رکعت بنا دیں گے) اور اگر وہ پہلے ہی پوری نماز پڑھ چکا ہے تو یہ دو سجدے شیطان کے لیے باعث ذلت و اہانت (اس کی ناک رگڑائی) ہوں گے۔‘‘ (اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔)
تشریح :
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جب نمازی کو رکعات کی تعداد میں شک پڑ جائے تو اسے کم پر بنیاد رکھنی چاہیے۔ اس میں یقین کا امکان ہے۔ امام مالک‘ امام شافعی‘ امام احمد رحمہم اللہ اور جمہور علماء کا یہی مذہب ہے‘ البتہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ نماز میں شک واقع ہونے کی صورت میں اسے تحری کرنی چاہیے‘ یعنی یاد کرنے کی انتہائی کوشش کرے‘ اگر گمان غالب کسی طرف ہو جائے تو اس پر عمل کرے اور اگر تحری کے باوجود دونوں اطراف مساوی نظر آئیں تو پھر کم پر بنیاد رکھے۔
تخریج :
أخرجه أبوداود، الصلاة، باب ماجاء في التشهد في سجدتي السهو، حديث:1039، والترمذي، الصلاة، حديث:395، والحاكم:1 /323، وأعل بما لا يقدح، وألله اعلم.
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جب نمازی کو رکعات کی تعداد میں شک پڑ جائے تو اسے کم پر بنیاد رکھنی چاہیے۔ اس میں یقین کا امکان ہے۔ امام مالک‘ امام شافعی‘ امام احمد رحمہم اللہ اور جمہور علماء کا یہی مذہب ہے‘ البتہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ نماز میں شک واقع ہونے کی صورت میں اسے تحری کرنی چاہیے‘ یعنی یاد کرنے کی انتہائی کوشش کرے‘ اگر گمان غالب کسی طرف ہو جائے تو اس پر عمل کرے اور اگر تحری کے باوجود دونوں اطراف مساوی نظر آئیں تو پھر کم پر بنیاد رکھے۔