كِتَابُ الصَّلَاةِ بَابُ سُجُودِ السَّهْوِ وَغَيْرِهِ صحيح وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ - رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ - قَالَ: صَلَّى النَّبِيُّ - صلى الله عليه وسلم - إِحْدَى صَلَاتِي الْعَشِيِّ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ سَلَّمَ، ثُمَّ قَامَ إِلَى خَشَبَةٍ فِي مُقَدَّمِ الْمَسْجِدِ، فَوَضَعَ يَدَهُ عَلَيْهَا، وَفِي الْقَوْمِ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ، فَهَابَا أَنْ يُكَلِّمَاهُ، وَخَرَجَ سَرَعَانُ النَّاسِ، فَقَالُوا: أَقُصِرَتِ الصَّلَاةُ! وَرَجُلٌ يَدْعُوهُ النَّبِيُّ - صلى الله عليه وسلم - ذَا الْيَدَيْنِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَنَسِيتَ أَمْ قُصِرَتْ؟ فَقَالَ: ((لَمْ أَنْسَ وَلَمْ تُقْصَرْ)) فَقَالَ: بَلَى، قَدْ نَسِيتَ، فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ سَلَّمَ، ثُمَّ كَبَّرَ، فَسَجَدَ مِثْلَ سُجُودِهِ، أَوْ أَطْوَلَ [ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ فَكَبَّرَ، ثُمَّ وَضَعَ رَأْسَهُ، فَكَبَّرَ، فَسَجَدَ مِثْلَ سُجُودِهِ، أَوْ أَطْوَلَ]. ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ وَكَبَّرَ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ، وَاللَّفْظُ لِلْبُخَارِيِّ. وَفِي رِوَايَةٍ لِمُسْلِمٍ: صَلَاةُ الْعَصْرِ. وَلِأَبِي دَاوُدَ، فَقَالَ: ((أَصَدَقَ ذُو الْيَدَيْنِ؟)) فَأَوْمَئُوا: أَيْ نَعَمْ. وَهِيَ فِي ((الصَّحِيحَيْنِ)) لَكِنْ بِلَفْظِ: فَقَالُوا. وَهِيَ فِي رِوَايَةٍ لَهُ: وَلَمْ يَسْجُدْ حَتَّى يَقَّنَهُ اللَّهُ تَعَالَى ذَلِكَ.
کتاب: نماز سے متعلق احکام و مسائل
باب: سجود سہو وغیرہ کا بیان
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پچھلے پہر کی دو نمازوں (ظہر اور عصر) میں سے ایک میں دو رکعتیں پڑھ کر سلام پھیر دیا اور مسجد کے سامنے (کی طرف گاڑی ہوئی) ایک لکڑی کے پاس جا کر کھڑے ہوگئے اور اپنا ہاتھ اس پر رکھ لیا۔ لوگوں (نمازیوں) میں حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما بھی موجود تھے‘یہ دونوں آپ سے (اس بارے میں) بات کرنے سے ڈر گئے۔ اورجلد باز لوگ مسجد سے نکل گئے تو لوگوں نے (آپس میں سرگوشی کے انداز میں ایک دوسرے سے) پوچھنا شروع کیا کہ کیا نماز میں کمی کر دی گئی ہے؟ ایک آدمی تھا جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم (اس کے لمبے ہاتھوں کی وجہ سے) ذوالیدین کہہ کر بلاتے تھے‘ اس نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کیا آپ (آج) بھول گئے ہیں یا نماز کم کر دی گئی ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’نہ میں بھولا ہوں اور نہ نماز میں کمی کی گئی ہے۔‘‘ اس شخص نے پھر عرض کیا: کیوں نہیں‘ بلکہ آپ یقینا بھول گئے ہیں۔ پھر آپ نے دو رکعتیں (جو چھوٹ گئی تھیں) پڑھیں اور سلام پھیرا ‘پھر اللہ اکبر کہہ کر اپنے (معمول کے) سجدوں کی طرح سجدہ کیا یا ان سے بھی لمبا۔ پھر اللہ اکبر کہہ کر سر اوپر اٹھایا‘ پھر اللہ اکبر کہہ کر سرمبارک زمین پر رکھا اور اپنے (معمول کے) سجدے کی طرح یا اس سے کچھ طویل سجدہ کیا اور پھر اللہ اکبر کہہ کر اپنا سر اٹھایا۔(بخاری و مسلم- یہ الفاظ بخاری کے ہیں۔) اور مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ یہ عصر کی نماز تھی۔ اور ابوداود کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: ’’کیا ذوالیدین نے ٹھیک کہا ہے؟‘‘ تو لوگوں نے سر ہلا کر اشاروں سے کہا: ہاں۔ یہ اضافہ صحیحین میں بھی ہے لیکن ان میں [فَقَالُوا] کے لفظ کے ساتھ مروی ہے۔ (زبان سے انھوں نے کہا۔) اور ابوداود ہی کی ایک روایت میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جب تک اللہ کی جانب سے یقین نہ ہوا اس وقت تک سجدۂ سہو نہیں کیا۔ (جو کہ سنداً ضعیف ہے۔)
تشریح :
1. اس حدیث سے ثابت ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سہو سرزد ہوا ہے اور یہ نبوت کے منافی نہیں۔ 2.اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ آپ بھی انسان تھے۔ سہو وغیرہ ایک انسان سے ہی سرزد ہوتا ہے۔ جس طرح آپ نے فرمایا: [إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ أَنْسٰی کَمَا تَنْسَوْنَ فَإِذَا نَسِیتُ فَذَکِّرُونِي] (صحیح مسلم‘ المساجد‘ باب السھو في الصلاۃ والسجودلہ‘ حدیث:۵۷۲) نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ آپ عالم الغیب نہ تھے اور نہ آپ نے کبھی عالم ما کان وما یکون ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ اگر آپ کو علم غیب ہوتا تو سہو نہ ہوتا اور پھر تصدیق کے لیے لوگوں سے دریافت نہ فرماتے کہ کیا ذوالیدین نے ٹھیک اور سچ کہا ہے؟ سہو کی تصدیق ہونے پر اسے تسلیم کر لیا۔ 3. اگر غلطی سرزد ہو جانے پر کوئی اصلاح کرے تو اسے ثابت ہو جانے پر مان لینا چاہیے۔ 4. اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ سجدۂ سہو کرتے اور اٹھتے وقت اللہ اکبر کہنا چاہیے۔ 5.اس حدیث سے سجدۂ سہو سلام سے پہلے ثابت ہے۔ 6.یہ بھی معلوم ہوا کہ پہلا تشہد بھول جائے تو اس کی تلافی سہو کے دو سجدوں سے ہو جاتی ہے۔ 7. اس حدیث میں تو صرف [صَلَّی النَّبِيُّ] ہے‘ مگر بعض روایات میں [صَلّٰی بِنَا] کے الفاظ منقول ہیں‘ یعنی ہمیں نماز پڑھائی۔ (صحیح البخاري‘ الصلاۃ‘ حدیث: ۴۸۲) اس صورت میں راوئ حدیث بھی ان نمازیوں میں شریک تھے‘ لہٰذا معلوم ہوا کہ یہ حدیث قرآن مجید کی آیت: ﴿ قُوْمُوْا لِلّٰہِ قَانِتِیْنَ ﴾ سے منسوخ نہیں کیونکہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اس آیت کے نزول سے چار پانچ سال بعد اسلام لائے ہیں۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی یہ گفتگو سہواً نہیں قصداً ہوئی ہے‘ لہٰذا سلام کے بعد اصلاح نماز کے لیے اتنی سی بات نماز کو باطل نہیں کرتی۔ 8. مذکورہ حدیث کے آخری ٹکڑے [وَلَمْ یَسْجُدْ حَتّٰی یَقَّنَہُ اللّٰہُ تَعَالٰی ذٰلِکَ] کی بابت علمائے محققین لکھتے ہیں کہ یہ ضعیف ہے۔ وضاحت: [حضرت خرباق بن عمرو سلمی رضی اللہ عنہ ] بنو سلیم سے ہونے کی وجہ سے سلمی کہلائے۔ سہیلی نے الروض الأنف میں لکھا ہے کہ انھوں نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں وفات پائی۔ اور ابوعوانہ نے اپنی صحیح میں کہا ہے کہ انھوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں مقام ذی خشب پر وفات پائی۔ اور بعض روایات میں ذوالیدین کی بجائے ذوالشمالین بھی وارد ہے۔ بعض کا خیال ہے کہ دونوں سے ایک ہی شخص مراد ہے جبکہ یہ وہم ہے۔ صحیح بات یہی ہے کہ یہ دو شخص تھے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ ذوالشمالین بدر میں شہید ہوئے ہیں اور یہ واقعہ بیان کرنے والے حضرت ابوہریرہ اور حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہم ہیں اور یہ دونوں غزوۂ خیبر کے سال اسلام لائے ہیں۔اور انھوں نے ذوالیدین کا اس واقعہ میں ذکر کیا ہے۔ اور یہ اسی وقت ہی ہوسکتا ہے جب ذوالیدین کو اس وقت زندہ مانا جائے اور اسے ذوالشمالین سے الگ سمجھا جائے۔
تخریج :
أخرجه البخاري، الصلاة، باب تشبيك الأصابع في المسجد وغيره، حديث:482، والسهو، باب يكبر في سجدتي السهو، حديث:1229، ومسلم، المساجد، باب السهو في الصلاة، حديث:573، وأبوداود، الصلاة، حديث:1008، وهو حديث صحيح، وحديث:"ولم يسجد حتي يقَّنه الله تعاليٰ ذلك" أخرجه أبوداود، الصلاة، حديث:1012 وسنده ضعيف، فيه محمد بن كثير الصنعاني وهو ضعيف، ضعفه الجمهور من جهة سوء حفظه واختلط أيضًا.
1. اس حدیث سے ثابت ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سہو سرزد ہوا ہے اور یہ نبوت کے منافی نہیں۔ 2.اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ آپ بھی انسان تھے۔ سہو وغیرہ ایک انسان سے ہی سرزد ہوتا ہے۔ جس طرح آپ نے فرمایا: [إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ أَنْسٰی کَمَا تَنْسَوْنَ فَإِذَا نَسِیتُ فَذَکِّرُونِي] (صحیح مسلم‘ المساجد‘ باب السھو في الصلاۃ والسجودلہ‘ حدیث:۵۷۲) نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ آپ عالم الغیب نہ تھے اور نہ آپ نے کبھی عالم ما کان وما یکون ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ اگر آپ کو علم غیب ہوتا تو سہو نہ ہوتا اور پھر تصدیق کے لیے لوگوں سے دریافت نہ فرماتے کہ کیا ذوالیدین نے ٹھیک اور سچ کہا ہے؟ سہو کی تصدیق ہونے پر اسے تسلیم کر لیا۔ 3. اگر غلطی سرزد ہو جانے پر کوئی اصلاح کرے تو اسے ثابت ہو جانے پر مان لینا چاہیے۔ 4. اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ سجدۂ سہو کرتے اور اٹھتے وقت اللہ اکبر کہنا چاہیے۔ 5.اس حدیث سے سجدۂ سہو سلام سے پہلے ثابت ہے۔ 6.یہ بھی معلوم ہوا کہ پہلا تشہد بھول جائے تو اس کی تلافی سہو کے دو سجدوں سے ہو جاتی ہے۔ 7. اس حدیث میں تو صرف [صَلَّی النَّبِيُّ] ہے‘ مگر بعض روایات میں [صَلّٰی بِنَا] کے الفاظ منقول ہیں‘ یعنی ہمیں نماز پڑھائی۔ (صحیح البخاري‘ الصلاۃ‘ حدیث: ۴۸۲) اس صورت میں راوئ حدیث بھی ان نمازیوں میں شریک تھے‘ لہٰذا معلوم ہوا کہ یہ حدیث قرآن مجید کی آیت: ﴿ قُوْمُوْا لِلّٰہِ قَانِتِیْنَ ﴾ سے منسوخ نہیں کیونکہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اس آیت کے نزول سے چار پانچ سال بعد اسلام لائے ہیں۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی یہ گفتگو سہواً نہیں قصداً ہوئی ہے‘ لہٰذا سلام کے بعد اصلاح نماز کے لیے اتنی سی بات نماز کو باطل نہیں کرتی۔ 8. مذکورہ حدیث کے آخری ٹکڑے [وَلَمْ یَسْجُدْ حَتّٰی یَقَّنَہُ اللّٰہُ تَعَالٰی ذٰلِکَ] کی بابت علمائے محققین لکھتے ہیں کہ یہ ضعیف ہے۔ وضاحت: [حضرت خرباق بن عمرو سلمی رضی اللہ عنہ ] بنو سلیم سے ہونے کی وجہ سے سلمی کہلائے۔ سہیلی نے الروض الأنف میں لکھا ہے کہ انھوں نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں وفات پائی۔ اور ابوعوانہ نے اپنی صحیح میں کہا ہے کہ انھوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں مقام ذی خشب پر وفات پائی۔ اور بعض روایات میں ذوالیدین کی بجائے ذوالشمالین بھی وارد ہے۔ بعض کا خیال ہے کہ دونوں سے ایک ہی شخص مراد ہے جبکہ یہ وہم ہے۔ صحیح بات یہی ہے کہ یہ دو شخص تھے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ ذوالشمالین بدر میں شہید ہوئے ہیں اور یہ واقعہ بیان کرنے والے حضرت ابوہریرہ اور حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہم ہیں اور یہ دونوں غزوۂ خیبر کے سال اسلام لائے ہیں۔اور انھوں نے ذوالیدین کا اس واقعہ میں ذکر کیا ہے۔ اور یہ اسی وقت ہی ہوسکتا ہے جب ذوالیدین کو اس وقت زندہ مانا جائے اور اسے ذوالشمالین سے الگ سمجھا جائے۔