بلوغ المرام - حدیث 261

كِتَابُ الصَّلَاةِ بَابُ صِفَةِ الصَّلَاةِ ضعيف وَعَنْ جَابِرٍ - رضي الله عنه - أَنَّ النَّبِيَّ - صلى الله عليه وسلم - قَالَ لِمَرِيضٍ: ((صَلَّى عَلَى وِسَادَةٍ)) ، فَرَمَى بِهَا - وَقَالَ: ((صَلِّ عَلَى الْأَرْضِ إِنِ اسْتَطَعْتَ، وَإِلَّا فَأَوْمِئْ إِيمَاءً، وَاجْعَلْ سُجُودَكَ أَخْفَضَ مِنْ رُكُوعِكَ)). رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ بِسَنَدٍ قَوِيٍّ وَلَكِنْ صَحَّحَ أَبُو حَاتِمٍ وَقْفَهُ.

ترجمہ - حدیث 261

کتاب: نماز سے متعلق احکام و مسائل باب: نماز کی صفت کا بیان حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مریض کا‘ جس نے تکیے پر نماز پڑھی تھی‘ تکیہ پھینک دیا اور فرمایا: ’’اگر طاقت ہو تو زمین پر نماز پڑھو ورنہ پھر اشارے سے پڑھو‘ اور اپنے سجدے کو رکوع سے ذرا نیچے کرو۔‘‘ (اسے بیہقی نے قوی سند کے ساتھ روایت کیا ہے لیکن ابوحاتم نے اس کا موقوف ہونا صحیح قرار دیا ہے۔)
تشریح : 1. مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے‘ تاہم معناً صحیح ہے۔ بنابریں اگر کسی امر کی وجہ سے ایسا کرنا مشکل ہو تو پھر نمازی کو اشارے پر ہی قناعت کرنی چاہیے‘ البتہ سجدے اور رکوع کے اشارے میں فرق کیا جائے۔ سجدے کا اشارہ ذرا نیچے ہونا چاہیے بہ نسبت رکوع کے۔ 2. اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انسان کا تعلق اس کے خالق و مالک سے کسی صورت اور کسی لمحہ بھی منقطع نہیں ہونا چاہیے۔ ہر آن اس کی یاد دل و دماغ میں رچی بسی رہنی چاہیے۔ یہی مقام عبدیت ہے۔
تخریج : أخرجه البيهقي:2 /306، وسيأتي، حديث:352* سفيان الثوري وأبوالزبيرعنعنا. 1. مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے‘ تاہم معناً صحیح ہے۔ بنابریں اگر کسی امر کی وجہ سے ایسا کرنا مشکل ہو تو پھر نمازی کو اشارے پر ہی قناعت کرنی چاہیے‘ البتہ سجدے اور رکوع کے اشارے میں فرق کیا جائے۔ سجدے کا اشارہ ذرا نیچے ہونا چاہیے بہ نسبت رکوع کے۔ 2. اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انسان کا تعلق اس کے خالق و مالک سے کسی صورت اور کسی لمحہ بھی منقطع نہیں ہونا چاہیے۔ ہر آن اس کی یاد دل و دماغ میں رچی بسی رہنی چاہیے۔ یہی مقام عبدیت ہے۔