بلوغ المرام - حدیث 26

کِتَابُ الطَّھَارَۃِ بَابُ إِزَالَةِ النَّجَاسَةِ وَبَيَانِهَا صحيح وَعَنْ أَبِي السَّمْحِ - رضي الله عنه - قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ - صلى الله عليه وسلم: ((يُغْسَلُ مِنْ بَوْلِ الْجَارِيَةِ، وَيُرَشُّ مِنْ بَوْلِ الْغُلَامِ)). أَخْرَجَهُ أَبُو دَاوُدَ، وَالنَّسَائِيُّ، وَصَحَّحَهُ الْحَاكِمُ.

ترجمہ - حدیث 26

کتاب: طہارت سے متعلق احکام ومسائل باب: نجاست کا بیان اور اسے دور کرنے کے احکام ومسائل حضرت ابوسمح رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : ’’لڑکی کے پیشاب سے (کپڑا) دھویا جائے اور لڑکے کے پیشاب سے (کپڑے پر) پانی کے چھینٹے مارے جائیں۔‘‘ (اسے ابوداود اور نسائی نے روایت کیا ہے اور حاکم نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔)
تشریح : 1. حدیث سے یہ ثابت ہوا کہ لڑکے اور لڑکی کے پیشاب کی بابت شرعی حکم الگ الگ ہے۔ 2. لڑکی کا پیشاب لگنے سے کپڑے کو دھونا اور لڑکے کے پیشاب کے لیے پانی کا چھڑکنا اس وقت تک ہے جب تک دونوں کی مستقل غذا دودھ ہے۔ دودھ کے علاوہ غذا کھانے کی صورت میں دونوں کا پیشاب نجاست کے اعتبار سے یکساں حکم رکھتا ہے۔ 3.بچے کے پیشاب پر پانی چھڑکنے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ پاک ہے۔ بس حدیث میں اس سے زیادہ کچھ دلیل نہیں کہ بچے کے پیشاب کو پاک کرنے میں شریعت نے ذرا نرمی دی ہے۔(سبل السلام) 4. خلاصۂ کلام یہ ہے کہ لڑکی اور لڑکے کے پیشاب میں فرق ہے۔ شیر خوارگی کے ایام میں لڑکی کا پیشاب لڑکے کی بہ نسبت زیادہ ناپاک ہے۔ شیر خوارگی کے بعد دونوں میں کوئی فرق نہیں۔ 5.امام شافعی‘ امام احمد‘ ابن وہب‘ حسن بصری‘ اسحاق بن راہویہ رحمہم اللہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نزدیک لڑکے کے پیشاب پر پانی چھڑکنا کافی ہے۔ امام مالک اور امام ابوحنیفہ رحمہما اللہ دھونے کو ضروری قرار دیتے ہیں جو کہ صحیح نہیں۔ راوئ حدیث: [أَبُوالسَّمْح رضی اللہ عنہ ] ’’سین ‘‘پر فتحہ اور ’’میم‘‘ ساکن۔ ’’أبوسمح‘‘ ان کی کنیت ہے۔ ایاد (’’ہمزہ‘‘ کے کسرہ کے ساتھ) ان کا نام ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ نام اور کنیت ایک ہی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام اور آپ کے خادم تھے۔ علامہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک قول کے مطابق یہ گم ہوگئے تھے۔ معلوم نہیں کہاں وفات پائی؟ ان سے صرف یہی ایک حدیث مروی ہے۔
تخریج : أخرجه أبوداود، الطهارة، باب بول الصبي يصيب الثوب، حديث:376، والنسائي، الطهارة، حديث:305، والحاكم:1 / 166، وابن ماجه، الطهارة، حديث:526، وابن خزيمة:1 / 143، حديث:283. 1. حدیث سے یہ ثابت ہوا کہ لڑکے اور لڑکی کے پیشاب کی بابت شرعی حکم الگ الگ ہے۔ 2. لڑکی کا پیشاب لگنے سے کپڑے کو دھونا اور لڑکے کے پیشاب کے لیے پانی کا چھڑکنا اس وقت تک ہے جب تک دونوں کی مستقل غذا دودھ ہے۔ دودھ کے علاوہ غذا کھانے کی صورت میں دونوں کا پیشاب نجاست کے اعتبار سے یکساں حکم رکھتا ہے۔ 3.بچے کے پیشاب پر پانی چھڑکنے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ پاک ہے۔ بس حدیث میں اس سے زیادہ کچھ دلیل نہیں کہ بچے کے پیشاب کو پاک کرنے میں شریعت نے ذرا نرمی دی ہے۔(سبل السلام) 4. خلاصۂ کلام یہ ہے کہ لڑکی اور لڑکے کے پیشاب میں فرق ہے۔ شیر خوارگی کے ایام میں لڑکی کا پیشاب لڑکے کی بہ نسبت زیادہ ناپاک ہے۔ شیر خوارگی کے بعد دونوں میں کوئی فرق نہیں۔ 5.امام شافعی‘ امام احمد‘ ابن وہب‘ حسن بصری‘ اسحاق بن راہویہ رحمہم اللہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نزدیک لڑکے کے پیشاب پر پانی چھڑکنا کافی ہے۔ امام مالک اور امام ابوحنیفہ رحمہما اللہ دھونے کو ضروری قرار دیتے ہیں جو کہ صحیح نہیں۔ راوئ حدیث: [أَبُوالسَّمْح رضی اللہ عنہ ] ’’سین ‘‘پر فتحہ اور ’’میم‘‘ ساکن۔ ’’أبوسمح‘‘ ان کی کنیت ہے۔ ایاد (’’ہمزہ‘‘ کے کسرہ کے ساتھ) ان کا نام ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ نام اور کنیت ایک ہی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام اور آپ کے خادم تھے۔ علامہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک قول کے مطابق یہ گم ہوگئے تھے۔ معلوم نہیں کہاں وفات پائی؟ ان سے صرف یہی ایک حدیث مروی ہے۔