بلوغ المرام - حدیث 255

كِتَابُ الصَّلَاةِ بَابُ صِفَةِ الصَّلَاةِ صحيح وَعَنْ ثَوْبَانَ - رضي الله عنه - قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - إِذَا اِنْصَرَفَ مِنْ صَلَاتِهِ اسْتَغْفَرَ اللَّهَ ثَلَاثًا، وَقَالَ: ((اللَّهُمَّ أَنْتَ السَّلَامُ وَمِنْكَ السَّلَامُ، تَبَارَكْتَ يَا ذَا الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ)). رَوَاهُ مُسْلِمٌ.

ترجمہ - حدیث 255

کتاب: نماز سے متعلق احکام و مسائل باب: نماز کی صفت کا بیان حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سلام پھیرتے تو تین مرتبہ [أَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ] کہتے اور پھر پڑھتے۔ [اَللّٰھُمَّ! أَنْتَ السَّلَامُ وَمِنْکَ السَّلَامُ تَبَارَکْتَ یَا ذَا الْجَلَالِ وَالإِْکْرَامِ] ’’اے اللہ! میں تجھ سے مغفرت کا طالب ہوں۔ اے اللہ! تو سلام ہے‘ یعنی تو ہی سلامتی والا ہے۔ اور سلامتی تجھ ہی سے ہے۔ اے بزرگی و عزت کے مالک! تو بڑی برکت والا ہے۔‘‘ (اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔)
تشریح : 1. اس حدیث سے نماز کے اذکار کا استحباب ثابت ہوتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا استغفار بطور شکر اور تعلیم کے تھا اور اہل ایمان کا استغفار نماز میں کمی بیشی کے ازالے کے لیے ہے‘ نیز یہ استغفار وسواس اور خیالات کے پیدا ہونے کی وجہ سے بھی ہوتا ہے۔ 2. بہ تقاضائے بشریت جو کمی و زیادتی اور خیالات کی بنا پر نماز میں نقص واقع ہوگیا‘ہم اس کی مغفرت اور درگزر کی درخواست کرتے ہیں۔ یہی عبدیت کا تقاضا ہے کہ بندہ اپنے معبود سے معافی کا طلب گار رہے۔ 3.نبی صلی اللہ علیہ وسلم استغفار کس طرح کرتے تھے؟ امام نووی رحمہ اللہ نے اذکار میں بیان کیا ہے کہ امام اوزاعی سے استفسار کیا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا استغفار کون سا تھا؟ تو انھوں نے بتایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم [أَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ ‘ أَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ ‘ أَسْتَغْفِرُاللّٰہَ] پڑھا کرتے تھے۔ 4.اس حدیث میں دعا کے جتنے فقرات مذکور ہیں وہی پڑھنے مسنون ہیں۔ بعض لوگوں نے اس پر صبر نہیں کیا بلکہ اپنی جانب سے اضافہ کر کے کچھ کا کچھ بنا دیا‘ مثلاً: اسی دعا میں اس طرح اضافہ کر دیا: اَللّٰھُمَّ! أَنْتَ السَّلَامُ وَ مِنْکَ السَّلَامُ وَ إِلَـیْکَ یَرْجِعُ السَّلَامُ حَیِّنَا رَبَّنَا بِالسَّلَامِ تَبَارَکْتَ یَا ذَا الْجَلَالِ وَاْلإِکْرَامِ وغیرہ۔ 5.حدیث میں یہ اضافہ کہیں بھی منقول نہیں بلکہ یہ اپنی طرف سے ’’ریشم میں ٹاٹ کا پیوند‘‘ کا مصداق ہے۔
تخریج : أخرجه مسلم، المساجد، باب استحباب الذكر بعد الصلاة....، حديث:591. 1. اس حدیث سے نماز کے اذکار کا استحباب ثابت ہوتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا استغفار بطور شکر اور تعلیم کے تھا اور اہل ایمان کا استغفار نماز میں کمی بیشی کے ازالے کے لیے ہے‘ نیز یہ استغفار وسواس اور خیالات کے پیدا ہونے کی وجہ سے بھی ہوتا ہے۔ 2. بہ تقاضائے بشریت جو کمی و زیادتی اور خیالات کی بنا پر نماز میں نقص واقع ہوگیا‘ہم اس کی مغفرت اور درگزر کی درخواست کرتے ہیں۔ یہی عبدیت کا تقاضا ہے کہ بندہ اپنے معبود سے معافی کا طلب گار رہے۔ 3.نبی صلی اللہ علیہ وسلم استغفار کس طرح کرتے تھے؟ امام نووی رحمہ اللہ نے اذکار میں بیان کیا ہے کہ امام اوزاعی سے استفسار کیا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا استغفار کون سا تھا؟ تو انھوں نے بتایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم [أَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ ‘ أَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ ‘ أَسْتَغْفِرُاللّٰہَ] پڑھا کرتے تھے۔ 4.اس حدیث میں دعا کے جتنے فقرات مذکور ہیں وہی پڑھنے مسنون ہیں۔ بعض لوگوں نے اس پر صبر نہیں کیا بلکہ اپنی جانب سے اضافہ کر کے کچھ کا کچھ بنا دیا‘ مثلاً: اسی دعا میں اس طرح اضافہ کر دیا: اَللّٰھُمَّ! أَنْتَ السَّلَامُ وَ مِنْکَ السَّلَامُ وَ إِلَـیْکَ یَرْجِعُ السَّلَامُ حَیِّنَا رَبَّنَا بِالسَّلَامِ تَبَارَکْتَ یَا ذَا الْجَلَالِ وَاْلإِکْرَامِ وغیرہ۔ 5.حدیث میں یہ اضافہ کہیں بھی منقول نہیں بلکہ یہ اپنی طرف سے ’’ریشم میں ٹاٹ کا پیوند‘‘ کا مصداق ہے۔