بلوغ المرام - حدیث 252

كِتَابُ الصَّلَاةِ بَابُ صِفَةِ الصَّلَاةِ حسن وَعَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ - رضي الله عنه - قَالَ: صَلَّيْتُ مَعَ النَّبِيِّ - صلى الله عليه وسلم - فَكَانَ يُسَلِّمُ عَنْ يَمِينِهِ: ((السَّلَام عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ))، وَعَنْ شِمَالِهِ: ((السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ [وَبَرَكَاتُهُ])). رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ بِسَنَدٍ صَحِيحٍ.

ترجمہ - حدیث 252

کتاب: نماز سے متعلق احکام و مسائل باب: نماز کی صفت کا بیان حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی‘ آپ اپنی دائیں جانب سلام پھیرتے تو: [اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہُ]کہتے اور اپنی بائیں طرف [اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہُ]کہتے۔ (اسے ابوداود نے صحیح سند سے روایت کیا ہے۔)
تشریح : 1. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز کے سلام میں وَبَرَکَاتُہُ کا اضافہ صحیح حدیث سے ثابت ہے۔ یہ اضافہ گو اس موضوع کی اکثر روایات میں نہیں ہے لیکن یہ اور اس کے علاوہ بعض دیگر روایات سے بھی اس کی صحت ثابت ہے جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے نتائج الأفکار میں تفصیل سے اس پر بحث کی ہے‘ اس لیے السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ کہنا بھی درست ہے۔ 2. امام شافعی رحمہ اللہ بلکہ کبار صحابہ و تابعین کے نزدیک السلام علیکم کہہ کر نماز سے فارغ ہونا فرض ہے مگر احناف اسے صرف سنت قرار دیتے ہیں اور کسی بھی ایسے عمل کو نماز سے فارغ ہونے کے لیے کافی سمجھتے ہیں جو نماز کے منافی ہو۔ لیکن یہ صریح احادیث کے خلاف ہے اور سنت قولی و عملی کے بھی منافی ہے۔
تخریج : أخرجه أبوداود، الصلاة، با ب في السلام، حديث:997. 1. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز کے سلام میں وَبَرَکَاتُہُ کا اضافہ صحیح حدیث سے ثابت ہے۔ یہ اضافہ گو اس موضوع کی اکثر روایات میں نہیں ہے لیکن یہ اور اس کے علاوہ بعض دیگر روایات سے بھی اس کی صحت ثابت ہے جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے نتائج الأفکار میں تفصیل سے اس پر بحث کی ہے‘ اس لیے السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ کہنا بھی درست ہے۔ 2. امام شافعی رحمہ اللہ بلکہ کبار صحابہ و تابعین کے نزدیک السلام علیکم کہہ کر نماز سے فارغ ہونا فرض ہے مگر احناف اسے صرف سنت قرار دیتے ہیں اور کسی بھی ایسے عمل کو نماز سے فارغ ہونے کے لیے کافی سمجھتے ہیں جو نماز کے منافی ہو۔ لیکن یہ صریح احادیث کے خلاف ہے اور سنت قولی و عملی کے بھی منافی ہے۔