بلوغ المرام - حدیث 251

كِتَابُ الصَّلَاةِ بَابُ صِفَةِ الصَّلَاةِ صحيح وَعَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ - رضي الله عنه - أَنَّهُ قَالَ لِرَسُولِ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم: عَلِّمْنِي دُعَاءً أَدْعُو بِهِ فِي صَلَاتِي. قَالَ: ((قُلْ: اللَّهُمَّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي ظُلْمًا كَثِيرًا، وَلَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ، فَاغْفِرْ لِي مَغْفِرَةً مِنْ عِنْدِكَ، وَارْحَمْنِي، إِنَّكَ أَنْتَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ)). مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

ترجمہ - حدیث 251

کتاب: نماز سے متعلق احکام و مسائل باب: نماز کی صفت کا بیان حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ مجھے ایسی دعا سکھائیں جسے میں اپنی نماز میں پڑھا کروں۔ آپ نے فرمایا: ’’یہ پڑھا کرو: [اَللّٰھُمَّ! إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي…الخ] ’’اے اللہ! میں نے اپنی جان پر بہت ہی ظلم کیا ہے اور تیرے سوا کوئی گناہوں کو بخشنے والا نہیں‘ لہٰذا تو مجھے اپنی جناب سے معاف فرما دے اور مجھ پر رحم فرما۔ بے شک تو ہی بہت بخشنے والا اور بہت رحم فرمانے والا ہے۔‘‘ (بخاری و مسلم)
تشریح : اس حدیث سے ہمیں یہ سبق حاصل ہوتا ہے کہ ہر انسان کو اپنی کوتاہیوں اور لغزشوں کی معافی مانگتے رہنا چاہیے کیونکہ انسان سے ہر وقت لغزش اور غلطی و خطا کا امکان رہتا ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جیسا انسان بھی اپنے آپ کو اس سے مستغنی نہیں سمجھتا‘ حالانکہ ان کو جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے صدیق کا خطاب عطا ہوا تھا۔ راوئ حدیث : [حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ] ابوبکر کنیت اور صدیق لقب ہے۔ عبداللہ بن عثمان نام ہے۔ ان کے والد عثمان‘ ابو قحافہ کی کنیت سے مشہور تھے۔ تیم قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد پہلے خلیفۂ راشد تھے۔ انبیائے کرام علیہم السلام کے بعد تمام انسانوں میں سے افضل انسان ہیں۔ ہجرت مدینہ کے سفر کے دوران میں غار ثور میں آپ کے ساتھی تھے۔ اسی بنا پر ان کو یارِ غار کہا جاتا ہے۔ گورے چٹے‘ نرم مزاج اور دبلے پتلے جسم کے انسان تھے۔ تعریف سے مستغنی ہیں۔ بڑے عزم و استقلال اور صمیم الارادہ تھے۔ احباب و رفقاء کے لیے رحیم و رقیق اور اعدائے اسلام اور دشمنان دین کے لیے ناقابل تسخیر چٹان تھے۔ ۱۳ ہجری میں جمادی الاخریٰ میں وفات پائی۔
تخریج : أخرجه البخاري، الأذان، باب الدعاء قبل السلام، حديث:834، ومسلم، الذكر والدعاء، باب استحباب خفض الصوت بالذكر، حديث:2705. اس حدیث سے ہمیں یہ سبق حاصل ہوتا ہے کہ ہر انسان کو اپنی کوتاہیوں اور لغزشوں کی معافی مانگتے رہنا چاہیے کیونکہ انسان سے ہر وقت لغزش اور غلطی و خطا کا امکان رہتا ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جیسا انسان بھی اپنے آپ کو اس سے مستغنی نہیں سمجھتا‘ حالانکہ ان کو جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے صدیق کا خطاب عطا ہوا تھا۔ راوئ حدیث : [حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ] ابوبکر کنیت اور صدیق لقب ہے۔ عبداللہ بن عثمان نام ہے۔ ان کے والد عثمان‘ ابو قحافہ کی کنیت سے مشہور تھے۔ تیم قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد پہلے خلیفۂ راشد تھے۔ انبیائے کرام علیہم السلام کے بعد تمام انسانوں میں سے افضل انسان ہیں۔ ہجرت مدینہ کے سفر کے دوران میں غار ثور میں آپ کے ساتھی تھے۔ اسی بنا پر ان کو یارِ غار کہا جاتا ہے۔ گورے چٹے‘ نرم مزاج اور دبلے پتلے جسم کے انسان تھے۔ تعریف سے مستغنی ہیں۔ بڑے عزم و استقلال اور صمیم الارادہ تھے۔ احباب و رفقاء کے لیے رحیم و رقیق اور اعدائے اسلام اور دشمنان دین کے لیے ناقابل تسخیر چٹان تھے۔ ۱۳ ہجری میں جمادی الاخریٰ میں وفات پائی۔