کِتَابُ الطَّھَارَۃِ بَابُ إِزَالَةِ النَّجَاسَةِ وَبَيَانِهَا صحيح وَعَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - يَغْسِلُ الْمَنِيَّ، ثُمَّ يَخْرُجُ إِلَى الصَّلَاةِ فِي ذَلِكَ الثَّوْبِ، وَأَنَا أَنْظُرُ إِلَى أَثَرِ الْغُسْلِ فِيهِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْه. وَلِمُسْلِمٍ: لَقَدْ كُنْتُ أَفْرُكُهُ مِنْ ثَوْبِ رَسُولِ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - فَرْكًا، فَيُصَلِّي فِيهِ. وَفِي لَفْظٍ لَهُ: لَقَدْ كُنْتُ أَحُكُّهُ يَابِسًا بِظُفُرِي مِنْ ثَوْبِهِ.
کتاب: طہارت سے متعلق احکام ومسائل
باب: نجاست کا بیان اور اسے دور کرنے کے احکام ومسائل
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے‘ وہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (کپڑے پر لگی ہوئی) منی کو دھویا کرتے تھے۔ پھر اسی کپڑے کو زیب تن فرما کر نماز پڑھنے کے لیے تشریف لے جاتے اور میں دھونے کے نشان کو صاف طور پر دیکھ رہی ہوتی تھی۔ (بخاری و مسلم) اور مسلم کی روایت میں ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے سے منی کو کھرچ دیا کرتی تھی۔ پھر آپ اسی کپڑے میں نماز ادا فرما لیتے تھے۔ اور مسلم ہی کی ایک روایت میں اس طرح ہے کہ جب منی خشک ہو جاتی تو میں اپنے ناخن سے اسے کھرچ کر کپڑے سے اتار دیتی۔
تشریح :
1. اس بارے میں وارد تمام روایات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ منی کو مطلقاً کپڑے سے دھونا واجب نہیں‘ خواہ وہ خشک ہو یا تر‘ بلکہ اس کو زائل کرنے کے لیے جبکہ وہ ترہو اتنا ہی کافی ہے کہ اسے ہاتھ‘ کپڑے‘ گھاس یا دیگر اشیاء ‘مثلاً: لکڑی یا سرکنڈے وغیرہ سے صاف کر دیا جائے۔ 2. ایک گروہ نے ان احادیث کی روشنی میں یہ استدلال کیا ہے کہ منی پاک ہے۔ مگر اس میں ایسی کوئی چیز نہیں جو اس پر دلالت کرتی ہو کہ منی پاک ہے۔ علامہ شوکانی رحمہ اللہ نے نیل الاوطار میں کہا ہے کہ تَعَبُّدًا منی کو دھو کر‘ ہاتھ کے ساتھ صاف کر کے‘ اسے مَل کر‘ کھرچ کریا رگڑ کر زائل کرنا ثابت ہے۔ کسی چیز کے زائل کرنے کا حکم یہی معنی رکھتاہے کہ وہ چیز نجس ہے۔ پس صحیح موقف اور صائب مسلک یہی ہے کہ منی ناپاک ہے‘ لہٰذا مذکورہ بالا تمام طریقہ ہائے طہارت میں سے کسی ذریعے سے اس متأثرہ حصے کو پاک کیا جائے۔ مگر علامہ شوکانی رحمہ اللہ ہی نے السیل الجرار اور الدرر البھیّۃ میں منی کو پاک قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اس کی نجاست پر کوئی نص نہیں۔ گویا اس بارے میں ان کی رائے مختلف ہے۔ 3.واضح رہے کہ اس مسئلے میں اختلاف ہے کہ انسان کا مادہ منویہ پاک ہے یا ناپاک۔ ایک مکتب فکر کی رائے ہے کہ منی آب بینی (ناک کی رطوبت) اور لعاب دہن کی طرح پاک ہے۔ اس نقطۂ نظر کی نمائندگی ائمہ میں سے امام شافعی‘ داود ظاہری‘ امام احمد رحمہم اللہ اور صحابہ میں سے حضرت علی‘ حضرت سعد بن ابی وقاص‘ حضرت ابن عمر اور ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہم کرتے ہیں۔ اور دوسرے مکتب فکر کی نمائندگی ائمہ میں سے امام مالک اور امام ابوحنیفہ رحمہما اللہ کرتے ہیں لیکن امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک خشک منی کھرچ دینے سے کپڑا پاک ہو جاتا ہے۔ پانی سے دھونا ضروری نہیں۔ دونوں مکتب فکر کے پاس دلائل ہیں۔ منی کو پاک قرار دینے والوں کی دلیل اسے کھرچ دینا ہے۔ چونکہ اس کے بعد کپڑا دھویا نہیں گیا اس لیے یہ پاک ہے ورنہ کھرچنے کے بعد اسے دھویا ضرور جاتا۔ اور جس گروہ نے اسے ناپاک کہا ہے‘ ان کی دلیل منی سے آلودہ جگہ کو پانی سے دھونا ہے۔ اگر یہ پاک ہوتی تو دھونے کی چنداں ضرورت نہ تھی۔ اسے پاک کہنے والوں کا جواب یہ ہے کہ کپڑے کو دھویا تو صرف نظافت کی بنا پر گیا ہے نجاست کی وجہ سے نہیں۔ حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے بدائع الفوائد‘ ۳ /۱۱۹- ۱۲۶ میں اس پر بڑی نفیس بحث کی ہے۔ راوئ حدیث: [حضرت عائشہ صدیقہ بنت ابی بکرصدیق رضی اللہ عنہما ] ہجرت مدینہ سے دو سال قبل ماہ شوال میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اپنی زوجیت میں لیا اور رخصتی شوال ایک ہجری میں ہوئی۔ رخصتی کے وقت ان کی عمر نو سال تھی۔ تعریف و توصیف سے مستغنی ہیں۔ ۵۷ یا ۵۸ ہجری کے ماہ رمضان کی ۱۷ تاریخ کو فوت ہوئیں۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی اور بقیع کے قبرستان میں دفن کی گئیں۔ بڑی عالمہ فاضلہ تھیں۔ بہت سی احادیث کی راویہ ہیں۔ اشعار عرب سے بخوبی واقف تھیں۔ آپ کی براء ت آسمان سے نازل ہوئی جس کا ذکر قرآن مجید کی سورئہ نور میں ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم انھی کے حجرے میں مدفون ہیں۔
تخریج :
أخرجه البخاري، الوضوء، باب غسل المني وفركه، وغسل ما يصيب من المرأة، حديث:229، ومسلم، الطهارة، باب حكم المني، حديث:289، وانظر حديث: 288 للرواية الثانية، وحديث: 290 للرواية الأخيرة.
1. اس بارے میں وارد تمام روایات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ منی کو مطلقاً کپڑے سے دھونا واجب نہیں‘ خواہ وہ خشک ہو یا تر‘ بلکہ اس کو زائل کرنے کے لیے جبکہ وہ ترہو اتنا ہی کافی ہے کہ اسے ہاتھ‘ کپڑے‘ گھاس یا دیگر اشیاء ‘مثلاً: لکڑی یا سرکنڈے وغیرہ سے صاف کر دیا جائے۔ 2. ایک گروہ نے ان احادیث کی روشنی میں یہ استدلال کیا ہے کہ منی پاک ہے۔ مگر اس میں ایسی کوئی چیز نہیں جو اس پر دلالت کرتی ہو کہ منی پاک ہے۔ علامہ شوکانی رحمہ اللہ نے نیل الاوطار میں کہا ہے کہ تَعَبُّدًا منی کو دھو کر‘ ہاتھ کے ساتھ صاف کر کے‘ اسے مَل کر‘ کھرچ کریا رگڑ کر زائل کرنا ثابت ہے۔ کسی چیز کے زائل کرنے کا حکم یہی معنی رکھتاہے کہ وہ چیز نجس ہے۔ پس صحیح موقف اور صائب مسلک یہی ہے کہ منی ناپاک ہے‘ لہٰذا مذکورہ بالا تمام طریقہ ہائے طہارت میں سے کسی ذریعے سے اس متأثرہ حصے کو پاک کیا جائے۔ مگر علامہ شوکانی رحمہ اللہ ہی نے السیل الجرار اور الدرر البھیّۃ میں منی کو پاک قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اس کی نجاست پر کوئی نص نہیں۔ گویا اس بارے میں ان کی رائے مختلف ہے۔ 3.واضح رہے کہ اس مسئلے میں اختلاف ہے کہ انسان کا مادہ منویہ پاک ہے یا ناپاک۔ ایک مکتب فکر کی رائے ہے کہ منی آب بینی (ناک کی رطوبت) اور لعاب دہن کی طرح پاک ہے۔ اس نقطۂ نظر کی نمائندگی ائمہ میں سے امام شافعی‘ داود ظاہری‘ امام احمد رحمہم اللہ اور صحابہ میں سے حضرت علی‘ حضرت سعد بن ابی وقاص‘ حضرت ابن عمر اور ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہم کرتے ہیں۔ اور دوسرے مکتب فکر کی نمائندگی ائمہ میں سے امام مالک اور امام ابوحنیفہ رحمہما اللہ کرتے ہیں لیکن امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک خشک منی کھرچ دینے سے کپڑا پاک ہو جاتا ہے۔ پانی سے دھونا ضروری نہیں۔ دونوں مکتب فکر کے پاس دلائل ہیں۔ منی کو پاک قرار دینے والوں کی دلیل اسے کھرچ دینا ہے۔ چونکہ اس کے بعد کپڑا دھویا نہیں گیا اس لیے یہ پاک ہے ورنہ کھرچنے کے بعد اسے دھویا ضرور جاتا۔ اور جس گروہ نے اسے ناپاک کہا ہے‘ ان کی دلیل منی سے آلودہ جگہ کو پانی سے دھونا ہے۔ اگر یہ پاک ہوتی تو دھونے کی چنداں ضرورت نہ تھی۔ اسے پاک کہنے والوں کا جواب یہ ہے کہ کپڑے کو دھویا تو صرف نظافت کی بنا پر گیا ہے نجاست کی وجہ سے نہیں۔ حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے بدائع الفوائد‘ ۳ /۱۱۹- ۱۲۶ میں اس پر بڑی نفیس بحث کی ہے۔ راوئ حدیث: [حضرت عائشہ صدیقہ بنت ابی بکرصدیق رضی اللہ عنہما ] ہجرت مدینہ سے دو سال قبل ماہ شوال میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اپنی زوجیت میں لیا اور رخصتی شوال ایک ہجری میں ہوئی۔ رخصتی کے وقت ان کی عمر نو سال تھی۔ تعریف و توصیف سے مستغنی ہیں۔ ۵۷ یا ۵۸ ہجری کے ماہ رمضان کی ۱۷ تاریخ کو فوت ہوئیں۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی اور بقیع کے قبرستان میں دفن کی گئیں۔ بڑی عالمہ فاضلہ تھیں۔ بہت سی احادیث کی راویہ ہیں۔ اشعار عرب سے بخوبی واقف تھیں۔ آپ کی براء ت آسمان سے نازل ہوئی جس کا ذکر قرآن مجید کی سورئہ نور میں ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم انھی کے حجرے میں مدفون ہیں۔