كِتَابُ الصَّلَاةِ بَابُ صِفَةِ الصَّلَاةِ صحيح وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - كَانَ إِذَا قَعَدَ لِلتَّشَهُّدِ وَضَعَ يَدَهُ الْيُسْرَى عَلَى رُكْبَتِهِ الْيُسْرَى، وَالْيُمْنَى عَلَى الْيُمْنَى، وَعَقَدَ ثَلَاثَةً وَخَمْسِينَ، وَأَشَارَ بِإِصْبَعِهِ السَّبَّابَةِ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَفِي رِوَايَةٍ لَهُ: وَقَبَضَ أَصَابِعَهُ كُلَّهَا، وَأَشَارَ بِالَّتِي تَلِي الْإِبْهَامَ.
کتاب: نماز سے متعلق احکام و مسائل
باب: نماز کی صفت کا بیان
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب تشہد کے لیے بیٹھتے تو اپنا بایاں ہاتھ اپنے بائیں گھٹنے پر اور دایاں ہاتھ اپنے دائیں گھٹنے پر رکھتے اور تریپن(۵۳)کی گرہ دیتے اور اپنی انگشت شہادت سے اشارہ کرتے۔ (اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔) اور مسلم ہی کی ایک روایت میں ہے کہ آپ اپنی تمام انگلیاں بند کر لیتے اور انگوٹھے کے ساتھ ملی ہوئی انگلی سے اشارہ کرتے۔
تشریح :
1. اس حدیث میں ہے: [عَقَدَ ثلَاَثًا وَّخَمْسِینَ] تشہد میں بیٹھے ہوئے جب اشارہ فرماتے تو اپنے انگوٹھے کو پاس والی انگلی کی جڑ میں رکھتے اور باقی انگلیوں کو بند رکھتے۔ اسی طرح ہمیں کرنا چاہیے‘ تاکہ سنت پر عمل ہو جائے۔ 2. تشہد میں انگشت شہادت سے اشارے پر سب ائمہ متفق ہیں۔ ملا علی قاری مشہور حنفی عالم نے رفع سبابہ پر دو مستقل رسالے لکھے ہیں جن میں صحیح احادیث لا کر ثابت کیا ہے کہ رفع سبابہ مسنون ہے اور خلاصۂ کیدانی وغیرہ میں جو اسے حرام لکھا گیا ہے اس کی بڑی سخت تردید کی ہے جو قابل مطالعہ ہے۔ فقہ حنفی کی مشہور کتب در مختار‘ شامی اور شرح وقایہ وغیرہ میں بھی اسی طرح ہے۔
تخریج :
أخرجه مسلم، المساجد، باب صفة الجلوس في الصلاة، حديث:580.
1. اس حدیث میں ہے: [عَقَدَ ثلَاَثًا وَّخَمْسِینَ] تشہد میں بیٹھے ہوئے جب اشارہ فرماتے تو اپنے انگوٹھے کو پاس والی انگلی کی جڑ میں رکھتے اور باقی انگلیوں کو بند رکھتے۔ اسی طرح ہمیں کرنا چاہیے‘ تاکہ سنت پر عمل ہو جائے۔ 2. تشہد میں انگشت شہادت سے اشارے پر سب ائمہ متفق ہیں۔ ملا علی قاری مشہور حنفی عالم نے رفع سبابہ پر دو مستقل رسالے لکھے ہیں جن میں صحیح احادیث لا کر ثابت کیا ہے کہ رفع سبابہ مسنون ہے اور خلاصۂ کیدانی وغیرہ میں جو اسے حرام لکھا گیا ہے اس کی بڑی سخت تردید کی ہے جو قابل مطالعہ ہے۔ فقہ حنفی کی مشہور کتب در مختار‘ شامی اور شرح وقایہ وغیرہ میں بھی اسی طرح ہے۔