كِتَابُ الصَّلَاةِ بَابُ صِفَةِ الصَّلَاةِ صحيح وَعَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا - قَالَ: عَلَّمَنِي رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - كَلِمَاتٍ أَقُولُهُنَّ فِي قُنُوتِ الْوِتْرِ: ((اللَّهُمَّ اهْدِنِي فِيمَنْ هَدَيْتَ، وَعَافِنِي فِيمَنْ عَافَيْتَ، وَتَوَلَّنِي فِيمَنْ تَوَلَّيْتَ، وَبَارِكْ لِي فِيمَا أَعْطَيْتَ، وَقِنِي شَرَّ مَا قَضَيْتَ، فَإِنَّكَ تَقْضِي وَلَا يُقْضَى عَلَيْكَ، إِنَّهُ لَا يَذِلُّ مَنْ وَالَيْتَ، تَبَارَكْتَ رَبَّنَا وَتَعَالَيْتَ)). رَوَاهُ الْخَمْسَةُ. وَزَادَ الطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ: ((وَلَا يَعِزُّ مَنْ عَادَيْتَ)). زَادَ النَّسَائِيُّ مِنْ وَجْهٍ آخَرَ فِي آخِرِهِ: ((وَصَلَّى اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ)). وَلِلْبَيْهَقِيِّ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ -رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - يُعَلِّمُنَا دُعَاءً نَدْعُو بِهِ فِي الْقُنُوتِ مِنْ صَلَاةِ الصُّبْحِ. وَفِي سَنَدِهِ ضَعْفٌ.
کتاب: نماز سے متعلق احکام و مسائل
باب: نماز کی صفت کا بیان
حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے چند کلمات سکھائے کہ میں انھیں وتر کی قنوت میں پڑھا کروں۔ (اور وہ یہ ہیں:) [اَللّٰھُمَّ! اھْدِنِي فِیمَنْ ھَدَیْتَ…الخ ]’’اے اللہ! مجھے ہدایت دے کر ان لوگوں میں شامل فرما جنھیں تو نے رشد و ہدایت سے نوازا ہے۔ اور مجھے عافیت دے کر ان میں شامل فرما دے جنھیں تو نے عافیت بخشی ہے۔ اور جن کو تو نے اپنا دوست قرار دیا ہے ان میں مجھے بھی شامل کر کے اپنا دوست بنا لے۔ جو کچھ تو نے مجھے عطا فرمایا ہے اس میں میرے لیے برکت ڈال دے اور جس چیز کا تو نے فیصلہ فرما دیا ہے اس کے شرو برائی سے مجھے محفوظ رکھ اور بچا لے۔ یقینا فیصلہ تو ہی صادر فرماتا ہے اور تیرے خلاف فیصلہ صادر نہیں کیا جاسکتا۔ اور جس کا تو والی بنا وہ کبھی ذلیل و خوار اور رسوا نہیں ہو سکتا۔ اے ہمارے پروردگار! تو ہی برکت والا اور بلند و بالا ہے۔‘‘ (اسے پانچوں نے روایت کیا ہے۔) طبرانی اور بیہقی نے [وَلَا یَعِزُّ مَنْ عَادَیْتَ] کا اضافہ بھی نقل کیا ہے۔ یعنی اور جس سے تونے دشمنی کی وہ عزت نہیں پاسکتا‘ نیز نسائی نے ایک دوسرے طریق سے اس دعا کے آخر میں [وَصَلَّی اللّٰہُ عَلَی النَّبِيِّ]کا اضافہ بھی روایت کیا ہے‘ یعنی اور اللہ ‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر رحمت نازل فرمائے۔اور بیہقی میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں دعا سکھاتے تھے جسے ہم صبح کی نماز میں دعائے قنوت کی صورت میں مانگتے تھے۔(اس کی سند میں ضعف ہے۔)
تشریح :
1. اس حدیث سے ثابت ہوا کہ نماز وتر میں یہ دعا پڑھنی چاہیے۔ 2.دعائے قنوت وتر کی بابت حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دعائے قنوت وتر رکوع سے قبل پڑھتے تھے۔ (سنن النسائي‘ قیام اللیل‘ حدیث:۱۷۰۰‘ و سنن ابن ماجہ‘ إقامۃ الصلوات‘ حدیث:۱۱۸۲) نیز حضرت عبداللہ بن مسعود اور دیگر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا عمل مذکور ہے کہ وہ بھی قنوت وتر رکوع سے پہلے پڑھتے تھے۔ (مصنف ابن أبي شیبۃ:۲ /۹۷) بنابریں مسنون طریقہ یہی ہے کہ وتروں میں دعائے قنوت قبل از رکوع ہو‘ البتہ قنوت نازلہ بالخصوص رکوع کے بعد ہی ثابت ہے‘ تاہم بعض علماء دعائے قنوت وتر رکوع کے بعد پڑھنے کے قائل ہیں‘ وہ بھی جائز ہے لیکن علمائے محققین حافظ ابن حجر ‘ شیخ البانی‘ صاحب مرعاۃ مولانا عبیداللہ رحمانی رحمہم اللہ اور ہمارے فاضل محقق‘ نیز دیگر علماء نے قنوت وتر قبل از رکوع والی روایات کو زیادہ صحیح کہا ہے اور بعد از رکوع والی روایات پر انھیں ترجیح دی ہے جس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ افضل اور اولیٰ یہی بات ہے کہ قنوت وتر قبل از رکوع پڑھی جائے۔ واللّٰہ أعلم۔ 3.اس دعا کے آخر میں جو صَلَّی اللّٰہُ عَلَی النَّبِيِّ کے الفاظ ہیں‘ بعض حضرات نے انھیں ضعیف قرار دیا ہے‘ تاہم ان الفاظ کو دعا کے آخر میں پڑھ لینے میں کچھ قباحت نہیں کیونکہ حضرت ابو حلیمہ معاذ بن حارث انصاری رضی اللہ عنہ کے بارے میں ہے کہ وہ قنوت وتر میں نبی ٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود وسلام پڑھا کرتے تھے۔ (فضل الصلاۃ علی النبي صلی اللہ علیہ وسلم ‘ از إسماعیل القاضي‘ رقم:۱۰۷) اور یہ واقعہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور کا ہے۔ اس اثر کو حافظ ابن حجر اور شیخ البانی رحمہما اللہ نے صحیح قرار دیا ہے۔ دیکھیے: (صفۃ صلاۃ النبي‘ ص:۱۸۰) نیز حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے بارے میں ہے کہ وہ بھی قنوت وتر میں نبی ٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و صلاۃ پڑھا کرتے تھے۔ اس اثر کی سند بھی صحیح ہے‘ امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے۔ دیکھیے: (صفۃ صلاۃ النبي‘ ص:۱۸۰) 4.نماز وتر کی حیثیت کیا ہے اور ان کی تعداد کتنی ہے؟ اس بارے میں فقہاء میں اختلاف ہے۔ احناف کے نزدیک یہ واجب ہے مگر جمہور علماء کے نزدیک یہ سنت ہے اور یہی بات راجح ہے۔ رہا تعداد کا معاملہ تو اس کی تعداد احادیث سے‘ ایک سے لے کر گیارہ تک معلوم ہوتی ہے۔ دیکھیے: (صحیح مسلم‘ صلاۃ المسافرین‘ حدیث:۷۳۶- ۷۳۸‘ وسنن أبي داود‘ الوتر‘ حدیث: ۱۴۲۱- ۱۴۲۲‘ وسنن النسائي‘ قیام اللیل‘ حدیث:۱۶۹۷‘ ۱۶۹۸‘ ۱۷۰۵‘ ۱۷۰۷‘ ۱۷۱۰‘ وسنن ابن ماجہ‘ إقامۃ الصلوات‘ حدیث: ۱۱۹۰‘ ۱۱۹۲) احناف تین کے قائل ہیں۔ تین وتر پڑھنے کی نوعیت مختلف ہے۔ تین وتر ایک ہی تشہد سے یا دو رکعت کے بعد تشہد‘ درود شریف‘ دعا اور سلام اور پھر ایک وتر علیحدہ پڑھا جائے۔ دیکھیے: (سنن ابن ماجہ‘ حدیث: ۱۱۷۷‘ وسنن الدارقطني: ۲ /۲۵‘ ۲۷‘ وصحیح ابن حبان‘ حدیث:۶۸۰) پانچ وتر میں صرف آخر میں ایک تشہد ہے‘ سات وتر میں دو طریقے جائز ہیں: چھٹی رکعت میں تشہد پڑھ کر بغیر سلام کے کھڑا ہوا جائے اور آخری رکعت پڑھ کر سلام پھیر دیا جائے‘ یا پھر صرف آخری رکعت میں تشہد پڑھا جائے۔ اگر نو وتر اکٹھے پڑھے جائیں تو آٹھویں میں تشہد‘ درود شریف و دعا کے بعد بغیر سلام کے نویں رکعت پوری کر کے سلام پھیر دیا جائے‘ یا ہر دو دو رکعت پر سلام اور آخر میں ایک وتر پڑھا جائے‘ یا پھر چھٹی رکعت میں تشہد اور درود شریف پڑھ کر کھڑا ہو جائے اور ساتویں رکعت پڑھ کر سلام پھیرے اور پھر بعد میں دو رکعتیں پڑھے۔ مگر احناف صرف تین وتر کے قائل ہیں اور اس میں نماز مغرب کی طرح دو تشہد پڑھتے ہیں جو کہ صحیح روایات کے خلاف ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز وتر تین رکعت پڑھنے کی بھی اجازت دی ہے لیکن ان میں نماز مغرب کی مشابہت سے سے منع کیا ہے‘ اور وہ مشابہت اسی طرح بنتی ہے کہ تینوں رکعتیں دو تشہد اور ایک سلام سے پڑھی جائیں۔ ہاں‘ اگر نماز وتر کی تینوں رکعتیں ایک تشہد اور سلام ہی سے پڑھی جائیں یا پھر دو رکعت پڑھ کر سلام پھیر دیا جائے اور ایک رکعت الگ پڑھی جائے تو یہ درست اور مسنون ہے جس طرح کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا معمول بھی یہی تھا کہ آپ نماز تہجد دو دو رکعت کر کے پڑھتے رہتے اور پھر سب سے آخر میں ایک رکعت وتر پڑھ لیتے۔ واللّٰہ أعلم۔ (صحیح البخاري‘ الوتر‘ حدیث: ۹۹۵‘ وصحیح مسلم‘ صلاۃ المسافرین‘ حدیث:۷۴۹ بعد الحدیث:۷۵۳) 5.دعائے قنوت وتر میں ہاتھ اٹھانے کے بارے میں کوئی مرفوع روایت نہیں ہے‘ تاہم ابن ابی شیبہ میں کچھ آثار ملتے ہیں جن میں ہاتھ اٹھانے کا تذکرہ ہے۔ دیکھیے: (مصنف ابن أبي شیبۃ:۲ / ۱۰۱) 6. بعض علماء کے نزدیک ہاتھ اٹھا کر یا ہاتھ اٹھائے بغیر‘ دونوں طریقوں سے قنوت وتر پڑھنا صحیح ہے‘ البتہ ہاتھ اٹھا کر دعائے قنوت پڑھنا اس لیے راجح ہے کہ ایک تو قنوت نازلہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہاتھ اٹھانا ثابت ہے‘ لہٰذا اس پر قیاس کرتے ہوئے قنوت وتر میں بھی ہاتھ اٹھانے صحیح ہوں گے۔ اور دوسرے بعض صحابہ رضی اللہ عنہم سے قنوت وتر میں ہاتھ اٹھانے کا ثبوت ملتا ہے۔ 7. عام دعا کے اختتام پر ہاتھوں کو منہ پر پھیرنا گو کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں مگر بعض صحابہ‘ مثلاً: حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہم سے یہ عمل ثابت ہے۔ دیکھیے: (الأدب المفرد‘ حدیث: ۶۰۹) اس لیے اس کا جواز ہے‘ تاہم اگر کوئی شخص دعائے قنوت کے بعد ہاتھ منہ پر نہیں پھیرتا تو اس کا یہ عمل صحیح ہے کیونکہ اس کا ثبوت صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی نہیں ملتا۔ راوئ حدیث: [حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما ] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے‘ آپ کے دل کا سرور اور دنیا میں آپ کے لیے خوشبو تھے۔ جنت کے نوجوانوں کے سرداروں میں سے ایک یہ بھی ہیں۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ رمضان ۳ ہجری کو پیدا ہوئے اور انھیں ان کے والد گرامی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد مسلمانوں کا خلیفہ بنایا گیا لیکن اپنی خلافت کے سات ماہ بعد جمادی الاولیٰ ۴۱ ہجری کو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں دستبردار ہونے کا اعلان کر دیا تاکہ مسلمانوں کی دو جماعتوں کے درمیان خون نہ بہے۔ ۴۹ہجری کو فوت ہوئے اور بقیع میں دفن ہوئے۔
تخریج :
أخرجه أبوداود، الصلاة، باب القنوت في الوتر، حديث:1425، والترمذي، الوتر، حديث:464، والنسائي، قيام الليل، حديث:1746، وابن ماجه، إقامة الصلوات، حديث:1178، وأحمد:1 /199، قوله: "ولا يعز من عاديت" أخرجه البيهقي:2 /209، والطبراني في الكبير:3 /73، حديث:2701، وأبوداود: الوتر، حديث: 1425، وقوله:"صلى الله على النبي" أخرجه النسائي، قيام اللّيل، حديث:1747 وزاد" محمد" وسنده ضعيف، وثبت، موقوفًا عن أبي بن كعب عند ابن خزيمة:2 /155، حديث:1100، وحديث ابن عباس أخرجه البيهقي:2 /210 وسنده ضعيف، ابن جريج عنعن.
1. اس حدیث سے ثابت ہوا کہ نماز وتر میں یہ دعا پڑھنی چاہیے۔ 2.دعائے قنوت وتر کی بابت حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دعائے قنوت وتر رکوع سے قبل پڑھتے تھے۔ (سنن النسائي‘ قیام اللیل‘ حدیث:۱۷۰۰‘ و سنن ابن ماجہ‘ إقامۃ الصلوات‘ حدیث:۱۱۸۲) نیز حضرت عبداللہ بن مسعود اور دیگر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا عمل مذکور ہے کہ وہ بھی قنوت وتر رکوع سے پہلے پڑھتے تھے۔ (مصنف ابن أبي شیبۃ:۲ /۹۷) بنابریں مسنون طریقہ یہی ہے کہ وتروں میں دعائے قنوت قبل از رکوع ہو‘ البتہ قنوت نازلہ بالخصوص رکوع کے بعد ہی ثابت ہے‘ تاہم بعض علماء دعائے قنوت وتر رکوع کے بعد پڑھنے کے قائل ہیں‘ وہ بھی جائز ہے لیکن علمائے محققین حافظ ابن حجر ‘ شیخ البانی‘ صاحب مرعاۃ مولانا عبیداللہ رحمانی رحمہم اللہ اور ہمارے فاضل محقق‘ نیز دیگر علماء نے قنوت وتر قبل از رکوع والی روایات کو زیادہ صحیح کہا ہے اور بعد از رکوع والی روایات پر انھیں ترجیح دی ہے جس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ افضل اور اولیٰ یہی بات ہے کہ قنوت وتر قبل از رکوع پڑھی جائے۔ واللّٰہ أعلم۔ 3.اس دعا کے آخر میں جو صَلَّی اللّٰہُ عَلَی النَّبِيِّ کے الفاظ ہیں‘ بعض حضرات نے انھیں ضعیف قرار دیا ہے‘ تاہم ان الفاظ کو دعا کے آخر میں پڑھ لینے میں کچھ قباحت نہیں کیونکہ حضرت ابو حلیمہ معاذ بن حارث انصاری رضی اللہ عنہ کے بارے میں ہے کہ وہ قنوت وتر میں نبی ٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود وسلام پڑھا کرتے تھے۔ (فضل الصلاۃ علی النبي صلی اللہ علیہ وسلم ‘ از إسماعیل القاضي‘ رقم:۱۰۷) اور یہ واقعہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور کا ہے۔ اس اثر کو حافظ ابن حجر اور شیخ البانی رحمہما اللہ نے صحیح قرار دیا ہے۔ دیکھیے: (صفۃ صلاۃ النبي‘ ص:۱۸۰) نیز حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے بارے میں ہے کہ وہ بھی قنوت وتر میں نبی ٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و صلاۃ پڑھا کرتے تھے۔ اس اثر کی سند بھی صحیح ہے‘ امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے۔ دیکھیے: (صفۃ صلاۃ النبي‘ ص:۱۸۰) 4.نماز وتر کی حیثیت کیا ہے اور ان کی تعداد کتنی ہے؟ اس بارے میں فقہاء میں اختلاف ہے۔ احناف کے نزدیک یہ واجب ہے مگر جمہور علماء کے نزدیک یہ سنت ہے اور یہی بات راجح ہے۔ رہا تعداد کا معاملہ تو اس کی تعداد احادیث سے‘ ایک سے لے کر گیارہ تک معلوم ہوتی ہے۔ دیکھیے: (صحیح مسلم‘ صلاۃ المسافرین‘ حدیث:۷۳۶- ۷۳۸‘ وسنن أبي داود‘ الوتر‘ حدیث: ۱۴۲۱- ۱۴۲۲‘ وسنن النسائي‘ قیام اللیل‘ حدیث:۱۶۹۷‘ ۱۶۹۸‘ ۱۷۰۵‘ ۱۷۰۷‘ ۱۷۱۰‘ وسنن ابن ماجہ‘ إقامۃ الصلوات‘ حدیث: ۱۱۹۰‘ ۱۱۹۲) احناف تین کے قائل ہیں۔ تین وتر پڑھنے کی نوعیت مختلف ہے۔ تین وتر ایک ہی تشہد سے یا دو رکعت کے بعد تشہد‘ درود شریف‘ دعا اور سلام اور پھر ایک وتر علیحدہ پڑھا جائے۔ دیکھیے: (سنن ابن ماجہ‘ حدیث: ۱۱۷۷‘ وسنن الدارقطني: ۲ /۲۵‘ ۲۷‘ وصحیح ابن حبان‘ حدیث:۶۸۰) پانچ وتر میں صرف آخر میں ایک تشہد ہے‘ سات وتر میں دو طریقے جائز ہیں: چھٹی رکعت میں تشہد پڑھ کر بغیر سلام کے کھڑا ہوا جائے اور آخری رکعت پڑھ کر سلام پھیر دیا جائے‘ یا پھر صرف آخری رکعت میں تشہد پڑھا جائے۔ اگر نو وتر اکٹھے پڑھے جائیں تو آٹھویں میں تشہد‘ درود شریف و دعا کے بعد بغیر سلام کے نویں رکعت پوری کر کے سلام پھیر دیا جائے‘ یا ہر دو دو رکعت پر سلام اور آخر میں ایک وتر پڑھا جائے‘ یا پھر چھٹی رکعت میں تشہد اور درود شریف پڑھ کر کھڑا ہو جائے اور ساتویں رکعت پڑھ کر سلام پھیرے اور پھر بعد میں دو رکعتیں پڑھے۔ مگر احناف صرف تین وتر کے قائل ہیں اور اس میں نماز مغرب کی طرح دو تشہد پڑھتے ہیں جو کہ صحیح روایات کے خلاف ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز وتر تین رکعت پڑھنے کی بھی اجازت دی ہے لیکن ان میں نماز مغرب کی مشابہت سے سے منع کیا ہے‘ اور وہ مشابہت اسی طرح بنتی ہے کہ تینوں رکعتیں دو تشہد اور ایک سلام سے پڑھی جائیں۔ ہاں‘ اگر نماز وتر کی تینوں رکعتیں ایک تشہد اور سلام ہی سے پڑھی جائیں یا پھر دو رکعت پڑھ کر سلام پھیر دیا جائے اور ایک رکعت الگ پڑھی جائے تو یہ درست اور مسنون ہے جس طرح کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا معمول بھی یہی تھا کہ آپ نماز تہجد دو دو رکعت کر کے پڑھتے رہتے اور پھر سب سے آخر میں ایک رکعت وتر پڑھ لیتے۔ واللّٰہ أعلم۔ (صحیح البخاري‘ الوتر‘ حدیث: ۹۹۵‘ وصحیح مسلم‘ صلاۃ المسافرین‘ حدیث:۷۴۹ بعد الحدیث:۷۵۳) 5.دعائے قنوت وتر میں ہاتھ اٹھانے کے بارے میں کوئی مرفوع روایت نہیں ہے‘ تاہم ابن ابی شیبہ میں کچھ آثار ملتے ہیں جن میں ہاتھ اٹھانے کا تذکرہ ہے۔ دیکھیے: (مصنف ابن أبي شیبۃ:۲ / ۱۰۱) 6. بعض علماء کے نزدیک ہاتھ اٹھا کر یا ہاتھ اٹھائے بغیر‘ دونوں طریقوں سے قنوت وتر پڑھنا صحیح ہے‘ البتہ ہاتھ اٹھا کر دعائے قنوت پڑھنا اس لیے راجح ہے کہ ایک تو قنوت نازلہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہاتھ اٹھانا ثابت ہے‘ لہٰذا اس پر قیاس کرتے ہوئے قنوت وتر میں بھی ہاتھ اٹھانے صحیح ہوں گے۔ اور دوسرے بعض صحابہ رضی اللہ عنہم سے قنوت وتر میں ہاتھ اٹھانے کا ثبوت ملتا ہے۔ 7. عام دعا کے اختتام پر ہاتھوں کو منہ پر پھیرنا گو کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں مگر بعض صحابہ‘ مثلاً: حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہم سے یہ عمل ثابت ہے۔ دیکھیے: (الأدب المفرد‘ حدیث: ۶۰۹) اس لیے اس کا جواز ہے‘ تاہم اگر کوئی شخص دعائے قنوت کے بعد ہاتھ منہ پر نہیں پھیرتا تو اس کا یہ عمل صحیح ہے کیونکہ اس کا ثبوت صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی نہیں ملتا۔ راوئ حدیث: [حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما ] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے‘ آپ کے دل کا سرور اور دنیا میں آپ کے لیے خوشبو تھے۔ جنت کے نوجوانوں کے سرداروں میں سے ایک یہ بھی ہیں۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ رمضان ۳ ہجری کو پیدا ہوئے اور انھیں ان کے والد گرامی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد مسلمانوں کا خلیفہ بنایا گیا لیکن اپنی خلافت کے سات ماہ بعد جمادی الاولیٰ ۴۱ ہجری کو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں دستبردار ہونے کا اعلان کر دیا تاکہ مسلمانوں کی دو جماعتوں کے درمیان خون نہ بہے۔ ۴۹ہجری کو فوت ہوئے اور بقیع میں دفن ہوئے۔