كِتَابُ الصَّلَاةِ بَابُ صِفَةِ الصَّلَاةِ صحيح وَعَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ - رضي الله عنه: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - قَنَتَ شَهْرًا بَعْدَ الرُّكُوعِ، يَدْعُو عَلَى أَحْيَاءٍ مِنْ أَحْيَاءِ الْعَرَبِ، ثُمَّ تَرَكَهُ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ. وَلِأَحْمَدَ وَالدَّارَقُطْنِيِّ نَحْوُهُ مِنْ وَجْهٍ آخَرَ، وَزَادَ: فَأَمَّا فِي الصُّبْحِ فَلَمْ يَزَلْ يَقْنُتُ حَتَّى فَارَقَ الدُّنْيَا.
کتاب: نماز سے متعلق احکام و مسائل
باب: نماز کی صفت کا بیان
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پورا مہینہ رکوع کے بعد دعائے قنوت پڑھی۔ اس میں آپ عرب کے قبیلوں میں سے بعض قبیلوں کے لیے بددعا فرماتے‘ پھر اسے چھوڑ دیا۔ (بخاری و مسلم) احمد اور دارقطنی نے ایک اور طریق سے اسے اسی طرح روایت کیا ہے۔ اس میں اتنا اضافہ ہے کہ صبح کی نماز میں دعائے قنوت تادم زیست کرتے رہے۔
تشریح :
1. اس حدیث سے کئی مسائل پر روشنی پڑتی ہے۔ نماز فجر میں آپ سے دعائے قنوت نازلہ ثابت ہے۔ عہد شکنی اور بد عہدی کی بنا پر مقتول صحابہ کی وجہ سے مہینہ بھر آپ بددعا کرتے رہے۔ ظاہر ہے یہ فرض نماز ہی تھی۔ اور یہ بھی معلوم ہوا کہ رکوع کے بعد دعا فرماتے رہے۔ 2. یہ بھی معلوم ہوا کہ اسلام دین تبلیغ ہے۔ مبلغین کی جماعت تیار رہنی چاہیے‘ جہاں تبلیغ کی ضرورت ہو وہاں جماعتی شکل میں تبلیغ کے لیے جانا چاہیے۔ 3.نظم جماعت کی طرف بھی اس سے اشارہ ملتا ہے اور اطاعت امیر بھی اس سے ظاہر ہے۔ 4. ایک بات یہ بھی واضح ہوتی ہے کہ نبی ٔاکرم صلی اللہ علیہ وسلم ذاتی علم غیب نہیں رکھتے تھے۔ اگر آپ کو علم غیب ہوتا تو اپنے تیار مبلغین کو قتل کے لیے کیوں بھیجتے۔ نعوذ باللہ! جان بوجھ کر تو آپ نے ایسا ہرگز نہیں کیا۔ جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے اطلاع موصول نہیں ہوئی اس وقت تک آپ کو اپنے بھیجے ہوئے مبلغین کی صورت حال کی کچھ خبر نہیں تھی۔ 5. احناف اسی حدیث کی روشنی میں بوقت ضرورت قنوت نازلہ کے قائل ہیں جبکہ امام شافعی رحمہ اللہ نماز فجر میں ہمیشہ دعائے قنوت پڑھنے کے قائل ہیں اور اسے مسنون قرار دیتے ہیں۔ 6. قنوتِ نازلہ کا طریقہ یہ ہے کہ امام رکوع کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعائے قنوت نازلہ پڑھے اور مقتدی آمین کہیں۔
تخریج :
أخرجه البخاري، الوتر، باب القنوت قبل الركوع وبعده، حديث: 1003، ومسلم، المساجد، باب استحباب القنوت في جميع الصلوات، حديث:677، وحديث "حتى فارق الدنيا" أخرجه أحمد:3 /162، والدار قطني:2 /39، حديث:1677، وسنده ضعيف* أبوجعفر الرازي ضعيف فيما يرويه عن الربيع بن أنس، وهذا منه.
1. اس حدیث سے کئی مسائل پر روشنی پڑتی ہے۔ نماز فجر میں آپ سے دعائے قنوت نازلہ ثابت ہے۔ عہد شکنی اور بد عہدی کی بنا پر مقتول صحابہ کی وجہ سے مہینہ بھر آپ بددعا کرتے رہے۔ ظاہر ہے یہ فرض نماز ہی تھی۔ اور یہ بھی معلوم ہوا کہ رکوع کے بعد دعا فرماتے رہے۔ 2. یہ بھی معلوم ہوا کہ اسلام دین تبلیغ ہے۔ مبلغین کی جماعت تیار رہنی چاہیے‘ جہاں تبلیغ کی ضرورت ہو وہاں جماعتی شکل میں تبلیغ کے لیے جانا چاہیے۔ 3.نظم جماعت کی طرف بھی اس سے اشارہ ملتا ہے اور اطاعت امیر بھی اس سے ظاہر ہے۔ 4. ایک بات یہ بھی واضح ہوتی ہے کہ نبی ٔاکرم صلی اللہ علیہ وسلم ذاتی علم غیب نہیں رکھتے تھے۔ اگر آپ کو علم غیب ہوتا تو اپنے تیار مبلغین کو قتل کے لیے کیوں بھیجتے۔ نعوذ باللہ! جان بوجھ کر تو آپ نے ایسا ہرگز نہیں کیا۔ جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے اطلاع موصول نہیں ہوئی اس وقت تک آپ کو اپنے بھیجے ہوئے مبلغین کی صورت حال کی کچھ خبر نہیں تھی۔ 5. احناف اسی حدیث کی روشنی میں بوقت ضرورت قنوت نازلہ کے قائل ہیں جبکہ امام شافعی رحمہ اللہ نماز فجر میں ہمیشہ دعائے قنوت پڑھنے کے قائل ہیں اور اسے مسنون قرار دیتے ہیں۔ 6. قنوتِ نازلہ کا طریقہ یہ ہے کہ امام رکوع کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعائے قنوت نازلہ پڑھے اور مقتدی آمین کہیں۔