كِتَابُ الصَّلَاةِ بَابُ صِفَةِ الصَّلَاةِ ضعيف وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا - أَنَّ النَّبِيَّ - صلى الله عليه وسلم - كَانَ يَقُولُ بَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ: ((اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي، وَارْحَمْنِي، وَاهْدِنِي، وَعَافِنِي، وَارْزُقْنِي)). رَوَاهُ الْأَرْبَعَةُ إِلَّا النَّسَائِيُّ، وَاللَّفْظُ لِأَبِي دَاوُدَ، وَصَحَّحَهُ الْحَاكِمُ.
کتاب: نماز سے متعلق احکام و مسائل
باب: نماز کی صفت کا بیان
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم دو سجدوں کے درمیان یہ دعا پڑھتے تھے : [اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِي‘ وَارْحَمْنِي‘ وَاھْدِنِي‘ وَعَافِنِي‘ وَارْزُقْنِي] ’’یا اللہ! مجھے بخش دے‘ مجھ پر رحم فرما‘ مجھے راہ ہدایت پر چلا‘ مجھے عافیت عطا فرما اور مجھے رزق (حلال) عطا فرما۔ ‘‘(اسے نسائی کے علاوہ چاروں نے روایت کیا ہے۔ یہ الفاظ ابوداود کے ہیں۔ اور اسے حاکم نے صحیح قرار دیا ہے۔)
تشریح :
1. نماز میں مختلف مواقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مختلف دعائیں منقول ہیں۔ اسی طرح دو سجدوں کے مابین جلسے کے موقع پر مذکورہ بالا دعا پڑھنا بھی منقول ہے۔ بعض روایات میں [وَارْفَعْنِي] اور بعض میں [وَاجْبُرْنِي] کا اضافہ بھی منقول ہے۔ (جامع الترمذي‘ الصلاۃ‘ حدیث:۲۸۴‘ وسنن ابن ماجہ‘ إقامۃ الصلوات‘ حدیث:۸۹۸) اور بعض میں مختصراً رَبِّ اغْفِرْلِي‘ رَبِّ اغْفِرْلِي کے الفاظ پڑھنے کا ذکر آیا ہے۔ (سنن أبي داود‘ الصلاۃ‘ حدیث:۸۷۴) اس لیے حسب حال جو دعا پڑھ لی جائے درست ہے۔ 2.حافظ ابن حجر رحمہ اللہ سے دعا کے الفاظ ذکر کرنے میں سہو ہوا ہے‘ دعا ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ اس دعا کے الفاظ ابوداود کے ہیں جبکہ ابوداود میں [وَارْحَمْنِـي] کے بعد [وَاھْدِنِي] کے بجائے [عَافِنِي] کا لفظ مذکور ہے۔ اور اسی طرح درست ہے۔ 3. مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے اور مزید لکھا ہے کہ مذکورہ دعا مکحول رحمہ اللہ سے مقطوع روایت‘ یعنی ان کا اپنا قول صحیح سند سے منقول ہے۔ دیکھیے تحقیق و تخریج حدیث ہٰذا۔ علاوہ ازیں دیگر محققین نے اسے صحیح اور حسن قرار دیا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعۃ الحدیثیۃ مسند الإمام أحمد: ۵ / ۷۳‘ و صفۃ الصلاۃ للألباني)بنابریں مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود قابل عمل اور قابل حجت ہے۔
تخریج :
أخرجه أبوداود، الصلاة، باب الدعاء بين السجدتين، حديث: 850، والترمذي، الصلاة، حديث:284، وابن ماجه، إقامة الصلوات، حديث:898، والحاكم: 1 /262_271* حبيب مدلس وعنعن وصح بنحوه عن مكحول رحمه الله من قوله، رواه ابن المقريء في معجمه (1357) وسنده صحيح.
1. نماز میں مختلف مواقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مختلف دعائیں منقول ہیں۔ اسی طرح دو سجدوں کے مابین جلسے کے موقع پر مذکورہ بالا دعا پڑھنا بھی منقول ہے۔ بعض روایات میں [وَارْفَعْنِي] اور بعض میں [وَاجْبُرْنِي] کا اضافہ بھی منقول ہے۔ (جامع الترمذي‘ الصلاۃ‘ حدیث:۲۸۴‘ وسنن ابن ماجہ‘ إقامۃ الصلوات‘ حدیث:۸۹۸) اور بعض میں مختصراً رَبِّ اغْفِرْلِي‘ رَبِّ اغْفِرْلِي کے الفاظ پڑھنے کا ذکر آیا ہے۔ (سنن أبي داود‘ الصلاۃ‘ حدیث:۸۷۴) اس لیے حسب حال جو دعا پڑھ لی جائے درست ہے۔ 2.حافظ ابن حجر رحمہ اللہ سے دعا کے الفاظ ذکر کرنے میں سہو ہوا ہے‘ دعا ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ اس دعا کے الفاظ ابوداود کے ہیں جبکہ ابوداود میں [وَارْحَمْنِـي] کے بعد [وَاھْدِنِي] کے بجائے [عَافِنِي] کا لفظ مذکور ہے۔ اور اسی طرح درست ہے۔ 3. مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے اور مزید لکھا ہے کہ مذکورہ دعا مکحول رحمہ اللہ سے مقطوع روایت‘ یعنی ان کا اپنا قول صحیح سند سے منقول ہے۔ دیکھیے تحقیق و تخریج حدیث ہٰذا۔ علاوہ ازیں دیگر محققین نے اسے صحیح اور حسن قرار دیا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعۃ الحدیثیۃ مسند الإمام أحمد: ۵ / ۷۳‘ و صفۃ الصلاۃ للألباني)بنابریں مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود قابل عمل اور قابل حجت ہے۔