بلوغ المرام - حدیث 234

كِتَابُ الصَّلَاةِ بَابُ صِفَةِ الصَّلَاةِ صحيح وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ -رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا- قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم: ((أُمِرْتُ أَنْ أَسْجُدَ عَلَى سَبْعَةِ أَعْظُمٍ: عَلَى الْجَبْهَةِ - وَأَشَارَ بِيَدِهِ إِلَى أَنْفِهِ - وَالْيَدَيْنِ، وَالرُّكْبَتَيْنِ، وَأَطْرَافِ الْقَدَمَيْنِ)). مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

ترجمہ - حدیث 234

کتاب: نماز سے متعلق احکام و مسائل باب: نماز کی صفت کا بیان حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مجھے سات ہڈیوں (اعضاء) پر سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے:پیشانی پر‘… اور اپنے دست مبارک سے اپنے ناک کی طرف اشارہ کیا… اور دونوں ہاتھوں‘ دونوں گھٹنوں اور دونوں قدموں کے کناروں پر۔‘‘ (بخاری و مسلم)
تشریح : 1. اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ پیشانی اور ناک دونوں مل کر ایک عضو ہے۔ اگر انھیں الگ الگ عضو شمار کیا جائے تو یہ آٹھ اعضاء بن جاتے ہیں‘ اس لیے ان دونوں کو ایک ہی عضو شمار کیا جانا چاہیے۔ امام مالک‘ امام احمد بن حنبل اور امام شافعی رحمہم اللہ تینوں امام اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے شاگردان رشید: امام ابویوسف اور امام محمد رحمہما اللہ بھی اس کے قائل ہیں کہ اگر کوئی شخص صرف پیشانی یا صرف ناک زمین پر رکھ کر سجدہ کرے تو یہ سجدہ ناتمام متصور ہوگا بلکہ اسے سجدہ ہی شمار نہیں کیا جائے گا۔ اس کے برعکس امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ یہ دونوں الگ الگ عضو ہیں۔ ان میں سے کوئی ایک عضو اگر زمین پر رکھا گیا تو سجدہ ہو جائے گا اور کسی قسم کا کوئی نقص نہیں رہے گا۔ لیکن ایک تو یہ اکثریت کے خلاف ہے کیونکہ تین امام اور دو مزید حنفی امام ایک طرف اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تنہا ایک طرف۔ پھر یہ مذکورہ بالا حدیث کے بھی خلاف ہے‘ اس لیے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی رائے کمزور ہے۔ 2. مصنف ابن ابی شیبہ میں حضرت عکرمہ رحمہ اللہ سے مرسلا ًمروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایک ایسے نمازی کے پاس سے ہوا جس کی ناک زمین پر نہیں لگ رہی تھی۔ آپ نے فرمایا: ’’جس کسی کی پیشانی اور ناک زمین پر نہ لگے اس کی تو نماز ہی نہیں ہوتی۔‘‘ (المصنف لابن أبي شیبۃ:۱ /۲۳۵‘ رقم:۲۶۹۵) یعنی ناک اور پیشانی دونوں کا حالت سجدہ میں زمین پر لگنا ضروری ہے۔ خلاصۂ گفتگو یہ ہے کہ سجدہ ساتوں اعضاء پر کیا جانا چاہیے ورنہ سجدہ صحیح نہیں ہو گا۔
تخریج : أخرجه البخاري، الأذان، باب السجود علي الأنف، حديث:812، ومسلم، الصلاة، باب أعضاء السجود....، حديث:490. 1. اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ پیشانی اور ناک دونوں مل کر ایک عضو ہے۔ اگر انھیں الگ الگ عضو شمار کیا جائے تو یہ آٹھ اعضاء بن جاتے ہیں‘ اس لیے ان دونوں کو ایک ہی عضو شمار کیا جانا چاہیے۔ امام مالک‘ امام احمد بن حنبل اور امام شافعی رحمہم اللہ تینوں امام اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے شاگردان رشید: امام ابویوسف اور امام محمد رحمہما اللہ بھی اس کے قائل ہیں کہ اگر کوئی شخص صرف پیشانی یا صرف ناک زمین پر رکھ کر سجدہ کرے تو یہ سجدہ ناتمام متصور ہوگا بلکہ اسے سجدہ ہی شمار نہیں کیا جائے گا۔ اس کے برعکس امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ یہ دونوں الگ الگ عضو ہیں۔ ان میں سے کوئی ایک عضو اگر زمین پر رکھا گیا تو سجدہ ہو جائے گا اور کسی قسم کا کوئی نقص نہیں رہے گا۔ لیکن ایک تو یہ اکثریت کے خلاف ہے کیونکہ تین امام اور دو مزید حنفی امام ایک طرف اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تنہا ایک طرف۔ پھر یہ مذکورہ بالا حدیث کے بھی خلاف ہے‘ اس لیے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی رائے کمزور ہے۔ 2. مصنف ابن ابی شیبہ میں حضرت عکرمہ رحمہ اللہ سے مرسلا ًمروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایک ایسے نمازی کے پاس سے ہوا جس کی ناک زمین پر نہیں لگ رہی تھی۔ آپ نے فرمایا: ’’جس کسی کی پیشانی اور ناک زمین پر نہ لگے اس کی تو نماز ہی نہیں ہوتی۔‘‘ (المصنف لابن أبي شیبۃ:۱ /۲۳۵‘ رقم:۲۶۹۵) یعنی ناک اور پیشانی دونوں کا حالت سجدہ میں زمین پر لگنا ضروری ہے۔ خلاصۂ گفتگو یہ ہے کہ سجدہ ساتوں اعضاء پر کیا جانا چاہیے ورنہ سجدہ صحیح نہیں ہو گا۔