كِتَابُ الصَّلَاةِ بَابُ صِفَةِ الصَّلَاةِ صحيح وَعَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - إِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ قَالَ: ((اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ مِلْءَ السَّمَوَاتِ وَمِلْءَ الْأَرْضِ، وَمِلْءَ مَا شِئْتَ مِنْ شَيْءٍ بَعْدُ، أَهْلَ الثَّنَاءِ وَالْمَجْدِ، أَحَقُّ مَا قَالَ الْعَبْدُ - وَكُلُّنَا لَكَ عَبْدٌ - اللَّهُمَّ لَا مَانِعَ لِمَا أَعْطَيْتَ، وَلَا مُعْطِيَ لِمَا مَنَعْتَ، وَلَا يَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْكَ الْجَدُّ)). رَوَاهُ مُسْلِمٌ.
کتاب: نماز سے متعلق احکام و مسائل
باب: نماز کی صفت کا بیان
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب رکوع سے اپنا سر اٹھاتے تو اَللّٰھُمَّ! رَبَّنَا لَکَ… الخ کہتے تھے۔ ’’اے اللہ! اے ہمارے رب! تعریف صرف تیرے لیے ہے‘ اتنی تعریف جس سے آسمان و زمین بھر جائیں اور اس کے بعد ہر وہ چیز بھر جائے جسے تو چاہے۔ اے تعریف اور بزرگی کے مالک! بہترین بات جو کسی بندے نے کہی … (بندے کے اقوال و کلمات میں سے رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ والا قول سب سے زیادہ استحقاق رکھتا ہے کہ اسے کہا جائے۔) اور ہم سبھی تیرے بندے ہیں … اے اللہ! جو کچھ تو عطا فرمائے اسے کوئی روکنے والا نہیں اور جسے تو ہی نہ دے اسے کوئی عطا کرنے والا نہیں اور کسی بخت اور نصیب والے کو اس کی بزرگی اور بخت تیرے عذاب کے مقابلے میں کوئی فائدہ نہیں دے سکتے۔‘‘ (اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔)
تشریح :
1. یہ حدیث اس بات پر دلیل اور حجت ہے کہ قومہ کی حالت میں یہ دعا پڑھنا مسنون و مشروع ہے۔ جن حضرات نے اس دعا کو نفل نماز کے ساتھ مخصوص کیا ہے ان کے پاس اس کی کوئی دلیل نہیں۔ صرف اپنے ذہن کی بات ہے۔ صحیح مسلم میں براء بن عازب رضی اللہ عنہما کی روایت اس خیال کی تردید کے لیے کافی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ فرض نماز میں اس کا پڑھنا ثابت ہے۔ (صحیح مسلم‘ الصلاۃ‘ باب اعتدال أرکان الصلاۃ…‘ حدیث:۴۷۱) اس دعا کے اس جملے [وَلَا یَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْکَ الْجَدُّ] سے واضح ہوتا ہے کہ کائنات کے مالک و خالق کے پاس محض دنیوی جاہ و جلال اور عظمت و بزرگی کچھ بھی کام نہ دے گی اور نہ کسی حسب و نسب کا امتیاز کچھ فائدہ مند ثابت ہوگا۔ وہاں تو عمل صالح کی قدر و قیمت ہوگی اور بس۔ کسی کا عالی نسب ہونا‘ بزرگوں کی اولاد ہونا اور کسی معروف و مشہور خاندان سے تعلق ہونا عذاب الٰہی سے نہیں چھڑا سکتا۔ اگر ایسا ہوتا تو حضرت نوح علیہ السلام کا بیٹا‘ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا باپ اور آخر الزماں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حقیقی چچا ابوطالب‘ عتاب الٰہی اور عذاب الٰہی کا شکار نہ ہوتے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تو اپنے خاندان والوں کو بلا کر صاف طور پر کہہ دیا کہ عمل صالح کرو ورنہ اللہ کے عذاب سے بچنا مشکل ہے۔ اور اپنی لخت جگر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے صاف فرما دیا تھا کہ ’’بیٹی! میں تجھے عذاب الٰہی سے ہرگز نہیں بچا سکتا‘ اس خوش فہمی میں نہ رہ جانا کہ میں نبی ٔآخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی لخت جگر ہوں۔ محض میری بیٹی ہونا تجھے اللہ تعالیٰ کے عذاب کی گرفت اور پکڑ سے نہیں بچا سکتا۔ اعمال صالحہ کر جو تجھے عذاب الٰہی سے بچا سکیں۔‘‘ (صحیح البخاري‘ الوصایا‘ باب ھل یدخل النساء والولد في الأقارب‘ حدیث:۲۷۵۳) اولوالعزم پیغمبر اور خاص کر رسول آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنی اولاد سے یہ فرما دیں تو اور کون ہے جو غرور نسب میں مبتلا ہو کر بھی کامیاب و کامران ہوجائے؟ 2.اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ قومہ میں صرف سیدھا کھڑا ہونا ہی کافی نہیں ہے بلکہ مسنون دعاؤں میں سے کوئی دعا (مثلاً یہی دعا) پڑھنی چاہیے۔
تخریج :
أخرجه مسلم، الصلاة، باب ما يقول إذا رفع رأسه من الركوع، حديث:477.
1. یہ حدیث اس بات پر دلیل اور حجت ہے کہ قومہ کی حالت میں یہ دعا پڑھنا مسنون و مشروع ہے۔ جن حضرات نے اس دعا کو نفل نماز کے ساتھ مخصوص کیا ہے ان کے پاس اس کی کوئی دلیل نہیں۔ صرف اپنے ذہن کی بات ہے۔ صحیح مسلم میں براء بن عازب رضی اللہ عنہما کی روایت اس خیال کی تردید کے لیے کافی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ فرض نماز میں اس کا پڑھنا ثابت ہے۔ (صحیح مسلم‘ الصلاۃ‘ باب اعتدال أرکان الصلاۃ…‘ حدیث:۴۷۱) اس دعا کے اس جملے [وَلَا یَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْکَ الْجَدُّ] سے واضح ہوتا ہے کہ کائنات کے مالک و خالق کے پاس محض دنیوی جاہ و جلال اور عظمت و بزرگی کچھ بھی کام نہ دے گی اور نہ کسی حسب و نسب کا امتیاز کچھ فائدہ مند ثابت ہوگا۔ وہاں تو عمل صالح کی قدر و قیمت ہوگی اور بس۔ کسی کا عالی نسب ہونا‘ بزرگوں کی اولاد ہونا اور کسی معروف و مشہور خاندان سے تعلق ہونا عذاب الٰہی سے نہیں چھڑا سکتا۔ اگر ایسا ہوتا تو حضرت نوح علیہ السلام کا بیٹا‘ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا باپ اور آخر الزماں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حقیقی چچا ابوطالب‘ عتاب الٰہی اور عذاب الٰہی کا شکار نہ ہوتے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تو اپنے خاندان والوں کو بلا کر صاف طور پر کہہ دیا کہ عمل صالح کرو ورنہ اللہ کے عذاب سے بچنا مشکل ہے۔ اور اپنی لخت جگر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے صاف فرما دیا تھا کہ ’’بیٹی! میں تجھے عذاب الٰہی سے ہرگز نہیں بچا سکتا‘ اس خوش فہمی میں نہ رہ جانا کہ میں نبی ٔآخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی لخت جگر ہوں۔ محض میری بیٹی ہونا تجھے اللہ تعالیٰ کے عذاب کی گرفت اور پکڑ سے نہیں بچا سکتا۔ اعمال صالحہ کر جو تجھے عذاب الٰہی سے بچا سکیں۔‘‘ (صحیح البخاري‘ الوصایا‘ باب ھل یدخل النساء والولد في الأقارب‘ حدیث:۲۷۵۳) اولوالعزم پیغمبر اور خاص کر رسول آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنی اولاد سے یہ فرما دیں تو اور کون ہے جو غرور نسب میں مبتلا ہو کر بھی کامیاب و کامران ہوجائے؟ 2.اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ قومہ میں صرف سیدھا کھڑا ہونا ہی کافی نہیں ہے بلکہ مسنون دعاؤں میں سے کوئی دعا (مثلاً یہی دعا) پڑھنی چاہیے۔