بلوغ المرام - حدیث 232

كِتَابُ الصَّلَاةِ بَابُ صِفَةِ الصَّلَاةِ صحيح وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - إِذَا قَامَ إِلَى الصَّلَاةِ يُكَبِّرُ حِينَ يَقُومُ، ثُمَّ يُكَبِّرُ حِينَ يَرْكَعُ، ثُمَّ يَقُولُ: ((سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ)) حِينَ يَرْفَعُ صُلْبَهُ مِنَ الرُّكُوعِ، ثُمَّ يَقُولُ وَهُوَ قَائِمٌ: ((رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ)) ثُمَّ يُكَبِّرُ حِينَ يَهْوِي سَاجِدًا، ثُمَّ يُكَبِّرُ حِينَ يَرْفَعُ رَأْسَهُ، ثُمَّ يُكَبِّرُ حِينَ يَسْجُدُ ثُمَّ يُكَبِّرُ حِينَ يَرْفَعُ، ثُمَّ يَفْعَلُ ذَلِكَ فِي الصَّلَاةِ كُلِّهَا، وَيُكَبِّرُ حِينَ يَقُومُ مِنِ اثْنَتَيْنِ بَعْدَ الْجُلُوسِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

ترجمہ - حدیث 232

کتاب: نماز سے متعلق احکام و مسائل باب: نماز کی صفت کا بیان حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز پڑھنے کا ارادہ فرماتے تو کھڑے ہوتے وقت اللہ اکبر کہتے۔ پھر جب رکوع کے لیے جاتے تو اس وقت اللہ اکبر کہتے۔ پھر رکوع سے اپنی پشت کو اٹھاتے وقت [سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہُ] کہتے اور پھر جب رکوع سے سیدھے کھڑے ہوتے تو [رَبَّنَا وَ لَکَ الْحَمْدُ] کہتے۔ پھر تکبیر کہتے ہوئے سجدے کے لیے جھکتے۔ پھر سجدے سے اپنا سر اٹھاتے وقت اللہ اکبر کہتے۔ پھر سجدے میں جاتے ہوئے اللہ اکبر کہتے‘ پھر سجدے سے اٹھتے ہوئے اللہ اکبر کہتے۔ پھر ساری نماز میں اسی طرح کرتے۔ پھر جب دوسری رکعت کے بعد (تشہد پڑھ کر) اٹھتے تو بھی اللہ اکبر کہتے۔(بخاری و مسلم)
تشریح : 1. نماز میں جو تکبیریں کہی جاتی ہیں ان میں سے پہلی تکبیر کو تکبیر تحریمہ‘ تکبیر افتتاح یا تکبیراولیٰ کہتے ہیں جس کا مطلب ہے کہ اب نماز میں داخلے کے بعد وہ سارے کام اور چیزیں حرام ہوگئیں جو نماز شروع کرنے سے پہلے حلال تھیں۔ باقی تکبیرات کو تکبیرات انتقال کہتے ہیں‘ یعنی ایک رکن نماز سے دوسرے رکن کی طرف منتقل ہونے کی تکبیریں۔ 2.پہلی تکبیر (تکبیر تحریمہ) فرض ہے اور باقی تکبیریں بعض کے نزدیک واجب ہیں مگر اکثر کے نزدیک مسنون ہیں۔ 3.بنوامیہ کے دور میں بعض امرائے بنو امیہ نے ان تکبیروں کو اہمیت نہ دی اور معمولی سمجھ کر چھوڑ دیا تھا مگر اس دور کے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم لوگوں کو ان کے مسنون ہونے کی تعلیم و یاد دہانی کراتے رہتے تھے تاکہ لوگ سنت نبوی پر عمل پیرا رہیں اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کا تعلق منقطع نہ ہونے پائے۔4. ہر دور میں علمائے حق کا فریضہ ہے کہ وہ نادان اور جاہل لوگوں کو سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اہمیت و فضیلت سے آگاہ رکھیں اور انکار سنت کے فتنے سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کرتے رہیں۔
تخریج : أخرجه البخاري، الأذان، باب يهوي بالتكبير حين يسجد، حديث:803، ومسلم، الصلاة، باب إثبات التكبير في كل خفض ورفع في الصلاة، حديث:392. 1. نماز میں جو تکبیریں کہی جاتی ہیں ان میں سے پہلی تکبیر کو تکبیر تحریمہ‘ تکبیر افتتاح یا تکبیراولیٰ کہتے ہیں جس کا مطلب ہے کہ اب نماز میں داخلے کے بعد وہ سارے کام اور چیزیں حرام ہوگئیں جو نماز شروع کرنے سے پہلے حلال تھیں۔ باقی تکبیرات کو تکبیرات انتقال کہتے ہیں‘ یعنی ایک رکن نماز سے دوسرے رکن کی طرف منتقل ہونے کی تکبیریں۔ 2.پہلی تکبیر (تکبیر تحریمہ) فرض ہے اور باقی تکبیریں بعض کے نزدیک واجب ہیں مگر اکثر کے نزدیک مسنون ہیں۔ 3.بنوامیہ کے دور میں بعض امرائے بنو امیہ نے ان تکبیروں کو اہمیت نہ دی اور معمولی سمجھ کر چھوڑ دیا تھا مگر اس دور کے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم لوگوں کو ان کے مسنون ہونے کی تعلیم و یاد دہانی کراتے رہتے تھے تاکہ لوگ سنت نبوی پر عمل پیرا رہیں اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کا تعلق منقطع نہ ہونے پائے۔4. ہر دور میں علمائے حق کا فریضہ ہے کہ وہ نادان اور جاہل لوگوں کو سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اہمیت و فضیلت سے آگاہ رکھیں اور انکار سنت کے فتنے سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کرتے رہیں۔