بلوغ المرام - حدیث 227

كِتَابُ الصَّلَاةِ بَابُ صِفَةِ الصَّلَاةِ صحيح وَعَنْ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ - رضي الله عنه - قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - يَقْرَأُ فِي الْمَغْرِبِ بِالطُّورِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

ترجمہ - حدیث 227

کتاب: نماز سے متعلق احکام و مسائل باب: نماز کی صفت کا بیان حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز مغرب میں سورۂ طور پڑھتے سنا ہے۔ (بخاری و مسلم)
تشریح : 1. نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عام معمول تو یہی تھا کہ مغرب میں قصار مفصل پڑھتے تھے جیسا کہ اوپر ذکر ہوا ہے، مگر بعض اوقات لمبی سورت بھی پڑھ لیتے تھے جیسا کہ اس حدیث میں سورۂ طور پڑھنا ثابت ہوا۔ بعض روایات میں المرسلات‘ أعراف اور أنعام کا نماز مغرب میں پڑھنا بھی ثابت ہے۔ (صحیح البخاري‘ الأذان‘ حدیث:۷۶۳‘ و سنن أبي داود‘ الصلاۃ‘ حدیث:۸۱۲) 2. آپ کے عمل سے یہ بھی ثابت ہے کہ آپ نے سفر کے دوران میں صبح کی فرض نماز میں صرف معوذتین کی تلاوت کی۔ (سنن أبي داود‘ الوتر‘ باب في المعوذتین‘ حدیث:۱۴۶۲) نیز حضرت معاذ بن عبداللہ جہنی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز فجر کی دونوں رکعتوں میں [اِذَا زُلْزِلَتِ] تلاوت فرمائی۔ (سنن أبي داود‘ الصلاۃ‘ باب الرجل یعید سورۃ واحدۃ في الرکعتین‘ حدیث:۸۱۶) بہرحال عام معمول وہی تھا جو اوپر مذکور ہوا‘ البتہ کبھی کبھی اس کے خلاف بھی جائز ہے۔
تخریج : أخرجه البخاري، الأذان، باب الجهر في المغرب، حديث:765، ومسلم، الصلاة، باب القراءة في الصبح، حديث:463. 1. نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عام معمول تو یہی تھا کہ مغرب میں قصار مفصل پڑھتے تھے جیسا کہ اوپر ذکر ہوا ہے، مگر بعض اوقات لمبی سورت بھی پڑھ لیتے تھے جیسا کہ اس حدیث میں سورۂ طور پڑھنا ثابت ہوا۔ بعض روایات میں المرسلات‘ أعراف اور أنعام کا نماز مغرب میں پڑھنا بھی ثابت ہے۔ (صحیح البخاري‘ الأذان‘ حدیث:۷۶۳‘ و سنن أبي داود‘ الصلاۃ‘ حدیث:۸۱۲) 2. آپ کے عمل سے یہ بھی ثابت ہے کہ آپ نے سفر کے دوران میں صبح کی فرض نماز میں صرف معوذتین کی تلاوت کی۔ (سنن أبي داود‘ الوتر‘ باب في المعوذتین‘ حدیث:۱۴۶۲) نیز حضرت معاذ بن عبداللہ جہنی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز فجر کی دونوں رکعتوں میں [اِذَا زُلْزِلَتِ] تلاوت فرمائی۔ (سنن أبي داود‘ الصلاۃ‘ باب الرجل یعید سورۃ واحدۃ في الرکعتین‘ حدیث:۸۱۶) بہرحال عام معمول وہی تھا جو اوپر مذکور ہوا‘ البتہ کبھی کبھی اس کے خلاف بھی جائز ہے۔