بلوغ المرام - حدیث 224

كِتَابُ الصَّلَاةِ بَابُ صِفَةِ الصَّلَاةِ صحيح وَعَنْ أَبِي قَتَادَةَ - رضي الله عنه - قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - يُصَلِّي بِنَا، فَيَقْرَأُ فِي الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ - فِي الرَّكْعَتَيْنِ الْأُولَيَيْنِ - بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ وَسُورَتَيْنِ، وَيُسْمِعُنَا الْآيَةَ أَحْيَانًا، وَيُطَوِّلُ الرَّكْعَةَ الْأُولَى، وَيَقْرَأُ فِي الْأُخْرَيَيْنِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

ترجمہ - حدیث 224

کتاب: نماز سے متعلق احکام و مسائل باب: نماز کی صفت کا بیان حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں نماز پڑھاتے تو ظہر اور عصر کی پہلی دو رکعتوں میں سورئہ فاتحہ اور دو سورتیں پڑھتے تھے اور کبھی کبھی ہمیں کوئی آیت سنا بھی دیتے تھے۔ آپ پہلی رکعت لمبی کرتے تھے اور آخری دونوں رکعتوں میں صرف فاتحۃ الکتاب پڑھتے تھے۔ (بخاری و مسلم)
تشریح : 1. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ظہر اور عصر کی نمازوں میں قراء ت بالاتفاق سری (خاموشی سے) ہے۔ 2. جب قراء ت جہری نہیں تو پھر بعض اوقات کوئی آیت سنانے کی کیا حکمت اور وجہ ہے؟ اس میں حکمت یہ معلوم ہوتی ہے کہ نمازیوں کو یہ معلوم ہو جائے کہ آپ اس وقت قرآن مجید ہی کا کوئی حصہ تلاوت فرما رہے ہیں دوسرا کوئی ذکر یا دعا نہیں پڑھ رہے۔ دوسری یہ کہ اس کا بھی نمازیوں کو علم ہو جائے کہ اس نماز میں فلاں سورت پڑھی جا رہی ہے۔ ایک مسئلہ یہ بھی اس حدیث سے مترشح ہوتا ہے کہ پہلی رکعت میں قراء ت نسبتاً لمبی اور دوسری میں چھوٹی ہونی چاہیے۔ ائمۂ ثلاثہ: امام احمد‘ امام شافعی اور امام مالک رحمہم اللہ کے ساتھ ساتھ امام محمد رحمہ اللہ کی بھی یہی رائے ہے‘ البتہ امام ابوحنیفہ اور ابویوسف رحمہما اللہ کے نزدیک دونوں رکعتوں میں قراء ت مساوی ہونی چاہیے۔ 3.ظہر‘ عصر اور فجر میں تو پہلی رکعت کا لمبا ہونا نص سے ثابت ہے، باقی دو کو انھی پر قیاس کر لیا ہے۔ ایسا آپ کیوں کرتے تھے؟ اس کی حکمت یہ معلوم ہوتی ہے کہ لوگ پہلی رکعت میں شامل ہو جائیں۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ پچھلی دو رکعتوں میں صرف سورئہ فاتحہ کے سوا اور کچھ نہ پڑھے‘ لیکن بعض احادیث سے پچھلی رکعتوں میں قراء ت کرنا بھی ثابت ہے‘ اس لیے آخری دو رکعتوں میں فاتحہ سے زائد قراء ت نہ بھی کی جائے تب بھی درست ہے اور قراء ت کر لی جائے تو بھی یہ ناجائز نہیں۔ (صحیح مسلم‘ الصلاۃ‘ باب القراء ۃ في الظھر والعصر‘ حدیث:۴۵۲) 4. ایک مسئلہ یہ بھی اخذ ہوتا ہے کہ سری نمازوں میں کسی آیت کو بلند آواز سے پڑھنے سے سجدۂ سہو لازم نہیں آتا۔ اور یہ بھی معلوم ہوا کہ ایسا فعل آپ سے ایک مرتبہ ہی عمل میں نہیں آیا بلکہ متعدد بار ایسا ہوا ہے۔
تخریج : أخرجه البخاري، الأذان، باب: يقرأ في الأخريين بفاتحة الكتاب، حديث: 776، ومسلم، الصلاة، باب القرءاة في الظهر والعصر، حديث:451. 1. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ظہر اور عصر کی نمازوں میں قراء ت بالاتفاق سری (خاموشی سے) ہے۔ 2. جب قراء ت جہری نہیں تو پھر بعض اوقات کوئی آیت سنانے کی کیا حکمت اور وجہ ہے؟ اس میں حکمت یہ معلوم ہوتی ہے کہ نمازیوں کو یہ معلوم ہو جائے کہ آپ اس وقت قرآن مجید ہی کا کوئی حصہ تلاوت فرما رہے ہیں دوسرا کوئی ذکر یا دعا نہیں پڑھ رہے۔ دوسری یہ کہ اس کا بھی نمازیوں کو علم ہو جائے کہ اس نماز میں فلاں سورت پڑھی جا رہی ہے۔ ایک مسئلہ یہ بھی اس حدیث سے مترشح ہوتا ہے کہ پہلی رکعت میں قراء ت نسبتاً لمبی اور دوسری میں چھوٹی ہونی چاہیے۔ ائمۂ ثلاثہ: امام احمد‘ امام شافعی اور امام مالک رحمہم اللہ کے ساتھ ساتھ امام محمد رحمہ اللہ کی بھی یہی رائے ہے‘ البتہ امام ابوحنیفہ اور ابویوسف رحمہما اللہ کے نزدیک دونوں رکعتوں میں قراء ت مساوی ہونی چاہیے۔ 3.ظہر‘ عصر اور فجر میں تو پہلی رکعت کا لمبا ہونا نص سے ثابت ہے، باقی دو کو انھی پر قیاس کر لیا ہے۔ ایسا آپ کیوں کرتے تھے؟ اس کی حکمت یہ معلوم ہوتی ہے کہ لوگ پہلی رکعت میں شامل ہو جائیں۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ پچھلی دو رکعتوں میں صرف سورئہ فاتحہ کے سوا اور کچھ نہ پڑھے‘ لیکن بعض احادیث سے پچھلی رکعتوں میں قراء ت کرنا بھی ثابت ہے‘ اس لیے آخری دو رکعتوں میں فاتحہ سے زائد قراء ت نہ بھی کی جائے تب بھی درست ہے اور قراء ت کر لی جائے تو بھی یہ ناجائز نہیں۔ (صحیح مسلم‘ الصلاۃ‘ باب القراء ۃ في الظھر والعصر‘ حدیث:۴۵۲) 4. ایک مسئلہ یہ بھی اخذ ہوتا ہے کہ سری نمازوں میں کسی آیت کو بلند آواز سے پڑھنے سے سجدۂ سہو لازم نہیں آتا۔ اور یہ بھی معلوم ہوا کہ ایسا فعل آپ سے ایک مرتبہ ہی عمل میں نہیں آیا بلکہ متعدد بار ایسا ہوا ہے۔