بلوغ المرام - حدیث 223

كِتَابُ الصَّلَاةِ بَابُ صِفَةِ الصَّلَاةِ حسن وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى -رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا- قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ - صلى الله عليه وسلم - فَقَالَ: إِنِّي لَا أَسْتَطِيعُ أَنْ آخُذَ مِنَ الْقُرْآنِ شَيْئًا، فَعَلِّمْنِي مَا يُجْزِئُنِي [مِنْهُ]. قَالَ: ((سُبْحَانَ اللَّهِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ، وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ، وَلَا حَوْلٌ وَلَا قُوَّةً إِلَّا بِاللَّهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيمِ ... )). الْحَدِيثَ. رَوَاهُ أَحْمَدُ، وَأَبُو دَاوُدَ، وَالنَّسَائِيُّ، وَصَحَّحَهُ ابْنُ حِبَّانَ، وَالدَّارَقُطْنِيُّ، وَالْحَاكِمُ.

ترجمہ - حدیث 223

کتاب: نماز سے متعلق احکام و مسائل باب: نماز کی صفت کا بیان حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میں قرآن میں سے کچھ بھی یاد نہیں رکھ سکتا‘ لہٰذا مجھے کوئی ایسی چیز سکھا دیں جو (میری نماز کے لیے) اس کی جگہ کافی ہو جائے۔ آپ نے فرمایا: ’’تم [سُبْحَانَ اللّٰہِ‘ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ‘ وَ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ‘ وَاللّٰہُ أَکْبَرُ‘ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ إِلَّا بِاللّٰہِ الْعَلِيِّ الْعَظِیمِ] ’’اللہ پاک ہے‘ اسی کی تعریف ہے‘ اس کے سوا کوئی معبود نہیں‘ اور اللہ سب سے بڑا ہے‘ برائیوں سے بچنا اور نیکی کی توفیق‘ اللہ کے سوا کسی سے ممکن نہیں۔‘‘ پڑھا کرو۔‘‘ لمبی حدیث ہے۔ (اسے احمد‘ ابوداود اور نسائی نے روایت کیا ہے اور ابن حبان‘ دارقطنی اور حاکم نے صحیح قرار دیا ہے۔)
تشریح : 1. اس حدیث سے ثابت ہوا کہ اگر کسی کو قرآن پاک میں سے کچھ بھی نہیں آتا تو مجبوری کی صورت میں یہ کلمات پڑھنے سے نماز ہو جائے گی۔ علاوہ ازیں شارح مصابیح نے اشارہ کیا ہے کہ اس سائل کا سوال یہ تھا کہ میں فوری طور پر کچھ یاد نہیں کر سکتا جبکہ نماز فرض ہو چکی ہے‘ تب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے یہ کلمات تعلیم فرمائے۔ (عون المعبود) 2.اس روایت سے اگر کوئی یہ استدلال کرے کہ سورۂ فاتحہ نماز میں فرض نہیں ہے تو یہ سینہ زوری ہے ورنہ کہاں مجبوری کی حالت اور کہاں غیر مجبوری۔ یہ آدمی تو معذور تھا‘ اس لیے معذوری کے دور ہونے تک اسے متبادل راستہ بتلایا گیا ہے۔ معذور کے لیے شریعت مطہرہ نے بہرصورت رعایت ملحوظ رکھی ہے۔ عارضی رعایت سے احکام میں تغیر و تبدل نہیں ہو جاتا۔ ایک معذور آدمی اگر یہ کہے کہ میں وضو نہیں کر سکتا اور کہا جائے کہ بھئی پھر تم تیمم کر لو تو کیا اس کا یہ مطلب لینا صحیح ہوگا کہ اب وضو فرض ہی نہیں رہا۔ کوئی بھی اس کا قائل نہیں کہ عدم استطاعت وضو کی صورت میں تیمم کا مشورہ وضو کی فرضیت ساقط کر دے گا‘ اس لیے مجبوری کی صورت میں اگر ان کلمات کے پڑھنے کا حکم دیا گیاتو اس سے فاتحہ کی فرضیت کیسے ساقط ہوگئی؟ راوئ حدیث: [حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہما ] ان کی کنیت ابومحمد یا ابومعاویہ ہے۔ ان کے والد کا نام علقمہ بن حارث اسلمی ہے۔ خود بھی شرف صحابیت سے سرفراز ہوئے اور باپ بھی۔ (باپ بیٹا دونوں صحابی ہیں۔) صلح حدیبیہ اور خیبر میں شریک ہوئے اور بعد والے غزوات میں بھی حصہ لیا۔ نبی ٔاکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کوفہ منتقل ہوگئے۔ ۸۷ ھ میں وفات پائی۔ کوفہ میں وفات پانے والے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں سب سے آخر میں وفات پانے والے صحابی ہیں۔ ان کی بینائی جاتی رہی تھی۔
تخریج : أخرجه أبوداود، الصلاة، باب ما يجزيء الأمي والأعجمي من القراءة، حديث:832، والنسائي، الافتتاح، حديث:925، وأحمد:4 /353، 356، 382، وابن حبان(الإحسان):3 /148، حديث:1807، والحاكم:1 /241، صححه على شرط البخاري، ووافقه الذهبي. 1. اس حدیث سے ثابت ہوا کہ اگر کسی کو قرآن پاک میں سے کچھ بھی نہیں آتا تو مجبوری کی صورت میں یہ کلمات پڑھنے سے نماز ہو جائے گی۔ علاوہ ازیں شارح مصابیح نے اشارہ کیا ہے کہ اس سائل کا سوال یہ تھا کہ میں فوری طور پر کچھ یاد نہیں کر سکتا جبکہ نماز فرض ہو چکی ہے‘ تب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے یہ کلمات تعلیم فرمائے۔ (عون المعبود) 2.اس روایت سے اگر کوئی یہ استدلال کرے کہ سورۂ فاتحہ نماز میں فرض نہیں ہے تو یہ سینہ زوری ہے ورنہ کہاں مجبوری کی حالت اور کہاں غیر مجبوری۔ یہ آدمی تو معذور تھا‘ اس لیے معذوری کے دور ہونے تک اسے متبادل راستہ بتلایا گیا ہے۔ معذور کے لیے شریعت مطہرہ نے بہرصورت رعایت ملحوظ رکھی ہے۔ عارضی رعایت سے احکام میں تغیر و تبدل نہیں ہو جاتا۔ ایک معذور آدمی اگر یہ کہے کہ میں وضو نہیں کر سکتا اور کہا جائے کہ بھئی پھر تم تیمم کر لو تو کیا اس کا یہ مطلب لینا صحیح ہوگا کہ اب وضو فرض ہی نہیں رہا۔ کوئی بھی اس کا قائل نہیں کہ عدم استطاعت وضو کی صورت میں تیمم کا مشورہ وضو کی فرضیت ساقط کر دے گا‘ اس لیے مجبوری کی صورت میں اگر ان کلمات کے پڑھنے کا حکم دیا گیاتو اس سے فاتحہ کی فرضیت کیسے ساقط ہوگئی؟ راوئ حدیث: [حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہما ] ان کی کنیت ابومحمد یا ابومعاویہ ہے۔ ان کے والد کا نام علقمہ بن حارث اسلمی ہے۔ خود بھی شرف صحابیت سے سرفراز ہوئے اور باپ بھی۔ (باپ بیٹا دونوں صحابی ہیں۔) صلح حدیبیہ اور خیبر میں شریک ہوئے اور بعد والے غزوات میں بھی حصہ لیا۔ نبی ٔاکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کوفہ منتقل ہوگئے۔ ۸۷ ھ میں وفات پائی۔ کوفہ میں وفات پانے والے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں سب سے آخر میں وفات پانے والے صحابی ہیں۔ ان کی بینائی جاتی رہی تھی۔