كِتَابُ الصَّلَاةِ بَابُ صِفَةِ الصَّلَاةِ صحيح وَعَنْ نُعَيْمٍ الْمُجَمِّرِ - رضي الله عنه - قَالَ: صَلَّيْتُ وَرَاءَ أَبِي هُرَيْرَةَ، فَقَرَأَ: (بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ) ثُمَّ قَرَأَ بِأُمِّ الْقُرْآنِ، حَتَّى إِذَا بَلَغَ: (وَلَا الضَّالِّينَ) ، قَالَ: ((آمِينَ)) وَيَقُولُ كُلَّمَا سَجَدَ، وَإِذَا قَامَ مِنَ الْجُلُوسِ: اللَّهُ أَكْبَرُ. ثُمَّ يَقُولُ إِذَا سَلَّمَ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ إِنِّي لَأَشْبَهُكُمْ صَلَاةً بِرَسُولِ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم. رَوَاهُ النَّسَائِيُّ وَابْنُ خُزَيْمَةَ.
کتاب: نماز سے متعلق احکام و مسائل
باب: نماز کی صفت کا بیان
حضرت نعیم مجمر رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ میں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی امامت میں نماز پڑھی تو انھوں نے پہلے بسم اللہ تلاوت فرمائی‘ پھر بعد ازاں ام القرآن (سورئہ فاتحہ) پڑھی حتی کہ جب آپ ﴿وَلَاالضَّآلِّیْن﴾ پر پہنچ گئے تو آمین کہی۔ اور جب بھی سجدہ کرتے اور جب بھی بیٹھنے کے بعد کھڑے ہوتے تو اللہ اکبر کہتے‘ پھر سلام پھیر کر فرمایا: مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! یقینا میں نماز کی ادائیگی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تم سب سے زیادہ مشابہ ہوں۔ (میری نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے بہت مشابہ ہے۔) (اسے نسائی اور ابن خزیمہ نے روایت کیا ہے۔)
تشریح :
1. یہ حدیث بسم اللہ اور آمین بالجہر کی مشروعیت پر دلالت کرتی ہے‘ اس لیے کہ جو آدمی (امام سے متصل صف سے) پچھلی صف میں ہوگا اسے امام کی قراء ت اور آمین اسی صورت میں سنائی دے گی جب کہ امام بلند آواز سے پڑھے (ورنہ اسے سنائی نہیں دے گی۔) 2. بسم اللہ اور آمین کے بلند آواز سے کہنے میں اختلاف ہے‘ باعتبار دلیل قابل ترجیح بات یہی ہے کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم کو آہستہ اور آمین بلند آواز سے کہی جائے۔ 3. سورۂ فاتحہ کے اختتام و اتمام پر آمین کہنا بالاتفاق مسنون ہے‘ خواہ امام ہو یا مقتدی یا تنہا۔ 4. امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک آمین کہنا واجب ہے اور اسے چھوڑنے والا گناہ گار ہے۔ 5. آمین کے معنی ہیں: اے اللہ! میری دعا قبول فرما۔ راوئ حدیث: [نعیم مجمر رحمہ اللہ ] ان کی کنیت ابوعبداللہ تھی۔ نُعَیْم‘ نَعِیم کی تصغیر ہے۔ مجمر میں ’’میم‘‘ پر ضمہ‘ ’’جیم‘‘ ساکن اور دوسرے ’’میم‘‘ کے نیچے کسرہ ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی آل کے آزاد کردہ غلام تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے ہر جمعہ کو دوپہر کے بعد مسجد نبوی میں خوشبو کی دھونی دیا کرتے تھے‘ اسی وجہ سے ان کا نام مجمر(خوشبو کی دھونی دینے والا) مشہور ہوگیا۔ مشہور تابعی تھے۔ ابوحاتم‘ ابن معین‘ ابن سعد اور نسائی رحمہم اللہ نے ان کو ثقہ قرار دیا ہے۔
تخریج :
أخرجه النسائي، الافتتاح، باب قراءة بسم الله الرحمن الرحيم، حديث:906، وابن خزيمة:1 /251، حديث:499.
1. یہ حدیث بسم اللہ اور آمین بالجہر کی مشروعیت پر دلالت کرتی ہے‘ اس لیے کہ جو آدمی (امام سے متصل صف سے) پچھلی صف میں ہوگا اسے امام کی قراء ت اور آمین اسی صورت میں سنائی دے گی جب کہ امام بلند آواز سے پڑھے (ورنہ اسے سنائی نہیں دے گی۔) 2. بسم اللہ اور آمین کے بلند آواز سے کہنے میں اختلاف ہے‘ باعتبار دلیل قابل ترجیح بات یہی ہے کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم کو آہستہ اور آمین بلند آواز سے کہی جائے۔ 3. سورۂ فاتحہ کے اختتام و اتمام پر آمین کہنا بالاتفاق مسنون ہے‘ خواہ امام ہو یا مقتدی یا تنہا۔ 4. امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک آمین کہنا واجب ہے اور اسے چھوڑنے والا گناہ گار ہے۔ 5. آمین کے معنی ہیں: اے اللہ! میری دعا قبول فرما۔ راوئ حدیث: [نعیم مجمر رحمہ اللہ ] ان کی کنیت ابوعبداللہ تھی۔ نُعَیْم‘ نَعِیم کی تصغیر ہے۔ مجمر میں ’’میم‘‘ پر ضمہ‘ ’’جیم‘‘ ساکن اور دوسرے ’’میم‘‘ کے نیچے کسرہ ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی آل کے آزاد کردہ غلام تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے ہر جمعہ کو دوپہر کے بعد مسجد نبوی میں خوشبو کی دھونی دیا کرتے تھے‘ اسی وجہ سے ان کا نام مجمر(خوشبو کی دھونی دینے والا) مشہور ہوگیا۔ مشہور تابعی تھے۔ ابوحاتم‘ ابن معین‘ ابن سعد اور نسائی رحمہم اللہ نے ان کو ثقہ قرار دیا ہے۔