کِتَابُ الطَّھَارَۃِ بَابُ إِزَالَةِ النَّجَاسَةِ وَبَيَانِهَا صحيح عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ - رضي الله عنه - قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - عَنْ الْخَمْرِ تُتَّخَذُ خَلًّا? قَالَ: ((لَا)). أَخْرَجَهُ مُسْلِم. وَالتِّرْمِذِيُّ وَقَالَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ
کتاب: طہارت سے متعلق احکام ومسائل
باب: نجاست کا بیان اور اسے دور کرنے کے احکام ومسائل
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شراب کو سرکہ بنانے کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا: ’’نہیں۔‘‘ (اسے مسلم اور ترمذی نے بیان کیا ہے اور ترمذی نے اسے حسن صحیح قرار دیا ہے۔)
تشریح :
1. اس میں یہ دلیل پائی جاتی ہے کہ شراب کا سرکہ بنانا حرام ہے‘ البتہ جب شراب خود بخود سرکہ بن جائے تو اس کے جواز اور حرمت کے بارے میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے۔ صحیح یہ ہے کہ ایسی صورت میں اس کی حرمت پر کوئی واضح دلیل نہیں۔ اور یہ حقیقت معلوم ہے کہ ایک چیز کی حالت کے بدلنے سے اس کا حکم بھی تبدیل ہو جاتا ہے۔ اور اشیاء میں اصل جواز ہے۔ اور یہی بات راجح ہے۔ 2. اس حدیث کا پس منظر کچھ اس طرح ہے کہ حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے پاس یتیموں کی شراب تھی۔ حرمت شراب کا حکم آنے کے بعد انھیں اندیشہ لاحق ہوا کہ یتیموں کا بڑا نقصان ہوگا۔ اس نقصان سے بچنے کے لیے انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شراب کو سرکے میں تبدیل کرنے کی اجازت طلب کی جس کے جواب میں آپ نے ایسا کرنے سے صاف طور پرمنع فرما دیا۔ (سنن أبي داود‘ الأشربۃ‘ باب ماجاء في الخمر تخلل‘ حدیث:۳۶۷۵) اس کھلی اور واضح ممانعت کے باوجود جس کسی نے شراب سے سرکہ بنانے کے جواز کا فتویٰ دیا اس نے نص صریح کی خلاف ورزی کی۔ 3.اس حدیث (اور دیگر ادلۂ شرعیہ) سے معلوم ہوا کہ شراب کا ہر قسم کا استعمال ناجائز ہے اور اس سے سرکہ بنانا بھی ممنوع ہے۔
تخریج :
أخرجه مسلم، الأشربة، باب تحريم تخليل الخمر، حديث:1983، والترمذي، البيوع، حديث:1294.
1. اس میں یہ دلیل پائی جاتی ہے کہ شراب کا سرکہ بنانا حرام ہے‘ البتہ جب شراب خود بخود سرکہ بن جائے تو اس کے جواز اور حرمت کے بارے میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے۔ صحیح یہ ہے کہ ایسی صورت میں اس کی حرمت پر کوئی واضح دلیل نہیں۔ اور یہ حقیقت معلوم ہے کہ ایک چیز کی حالت کے بدلنے سے اس کا حکم بھی تبدیل ہو جاتا ہے۔ اور اشیاء میں اصل جواز ہے۔ اور یہی بات راجح ہے۔ 2. اس حدیث کا پس منظر کچھ اس طرح ہے کہ حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے پاس یتیموں کی شراب تھی۔ حرمت شراب کا حکم آنے کے بعد انھیں اندیشہ لاحق ہوا کہ یتیموں کا بڑا نقصان ہوگا۔ اس نقصان سے بچنے کے لیے انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شراب کو سرکے میں تبدیل کرنے کی اجازت طلب کی جس کے جواب میں آپ نے ایسا کرنے سے صاف طور پرمنع فرما دیا۔ (سنن أبي داود‘ الأشربۃ‘ باب ماجاء في الخمر تخلل‘ حدیث:۳۶۷۵) اس کھلی اور واضح ممانعت کے باوجود جس کسی نے شراب سے سرکہ بنانے کے جواز کا فتویٰ دیا اس نے نص صریح کی خلاف ورزی کی۔ 3.اس حدیث (اور دیگر ادلۂ شرعیہ) سے معلوم ہوا کہ شراب کا ہر قسم کا استعمال ناجائز ہے اور اس سے سرکہ بنانا بھی ممنوع ہے۔