كِتَابُ الصَّلَاةِ بَابُ صِفَةِ الصَّلَاةِ صحيح وَعَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ - رضي الله عنه - قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم: ((لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِأُمِّ الْقُرْآنِ)). مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ. وَفِي رِوَايَةٍ، لِابْنِ حِبَّانَ وَالدَّارَقُطْنِيِّ: لَا تَجْزِي صَلَاةٌ لَا يُقْرَأُ فِيهَا بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ)). وَفِي أُخْرَى، لِأَحْمَدَ وَأَبِي دَاوُدَ، وَالتِّرْمِذِيِّ، وَابْنِ حِبَّانَ: ((لَعَلَّكُمْ تَقْرَءُونَ خَلْفَ إِمَامِكُمْ?)) قُلْنَا: نَعَمْ. قَالَ: ((لَا تَفْعَلُوا إِلَّا بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ، فَإِنَّهُ لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِهَا)).
کتاب: نماز سے متعلق احکام و مسائل
باب: نماز کی صفت کا بیان
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اس شخص کی کوئی نماز نہیں جس نے (نماز میں) ام القرآن نہ پڑھی۔‘‘ (بخاری و مسلم) ابن حبان اور دارقطنی میں روایت ہے: ’’جس نماز میں سورئہ فاتحہ نہ پڑھی گئی ہو وہ نماز کافی نہیں ہوتی۔‘‘ احمد‘ ابوداود‘ ترمذی اور ابن حبان کی ایک دوسری روایت میں ہے کہ ’’شاید تم لوگ امام کے پیچھے (کچھ) پڑھتے ہو؟‘‘ ہم نے عرض کیا: جی ہاں‘ (پڑھتے ہیں۔) آپ نے فرمایا: ’’ایسا نہ کیا کرو سوائے سورئہ فاتحہ کے‘ اس لیے کہ جس نے اسے نہ پڑھا اس کی (تو) نماز ہی نہیں۔‘‘
تشریح :
1. یہ حدیث کھلا اور واضح ثبوت ہے کہ سورۂ فاتحہ پڑھے بغیر کسی کی بھی نماز نہیں ہوتی‘ خواہ امام ہو یا مقتدی یا کوئی اکیلا شخص۔ صحیح ترین مرفوع احادیث کی روشنی میں یہی مذہب حق اور مبنی برصداقت ہے۔ شوافع‘ اہل حدیث اور اہل ظاہر اسی طرف گئے ہیں کہ ہر نمازی کے لیے ہر نماز کی ہر رکعت میں سورئہ فاتحہ کا پڑھنا واجب ہے۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین میں سے جمہور علماء کا یہی مسلک ہے کہ نماز کی ہر رکعت میں ہر ایک کے لیے اس کا پڑھنا واجب ہے۔ اس میں امام اور مقتدی کا کوئی فرق نہیں اور نہ جہری اور سری نماز ہی کا۔ صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ امام کے پیچھے بھی سورئہ فاتحہ کا پڑھنا لازمی اور لابدی امر ہے۔ (صحیح مسلم‘ الصلاۃ‘ باب وجوب قراء ۃ الفاتحۃ… ‘ حدیث:۳۹۵‘ ۳۹۶) ابوداود‘ ترمذی اور نسائی وغیرہ میں حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے بعد صحابہ رضی اللہ عنہم سے پوچھا: ’’کیا تم امام کے پیچھے پڑھتے ہو؟‘‘ انھوں نے عرض کیا: جی ہاں۔ اس پر آپ نے فرمایا: ’’سورئہ فاتحہ کے سوا اور کچھ نہ پڑھا کرو کیونکہ اس کے بغیر نماز ہی نہیں ہوتی۔‘‘ اور دوسری احادیث سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ سورئہ فاتحہ کے بغیر نماز قطعاً نہیں ہوتی۔ 2. مولانا عبدالحی لکھنوی حنفی نے ’’امام الکلام‘‘ اور ’’التعلیق الممجد‘‘ میں لکھا ہے: ’’کسی بھی صحیح حدیث سے فاتحہ خلف الامام کی ممانعت ثابت نہیں اور اس سلسلے میں جو نقل کیا جاتا ہے وہ صحیح نہیں۔ صحیح یہ ہے کہ سری نمازوں میں اور جہری کے سکتات میں مقتدی کو امام کے پیچھے سورئہ فاتحہ پڑھنی چاہیے۔ محدثین کی ایک جماعت کا یہی مذہب ہے۔‘‘ ان کے علاوہ متقدمین و متأخرین علمائے احناف کی ایک جماعت دلائل کی بنا پر فاتحہ خلف الامام کی قائل رہی ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اور شاہ عبدالعزیز رحمہما اللہ اسی کے قائل تھے حتی کہ مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ وغیرہ نے بھی سری نمازوں کے علاوہ جہری کے سکتات میں فاتحہ خلف الامام کو جائز قرار دیا ہے جس کی باحوالہ تفصیل مولانا ارشادالحق اثری حفظہ اللہ کی کتاب ’’توضیح الکلام‘‘ کی جلد اول میں دیکھی جا سکتی ہے۔ راوئ حدیث: [حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ ] عبادہ کی ’’عین‘‘ پر ضمہ اور ’’با‘‘ مخفف ہے۔ انصار کے قبیلہ ٔخزرج کے فرد تھے۔ سرداران انصار میں نمایاں شخصیت کے حامل تھے۔ بیعت عقبہ اولیٰ اور ثانیہ دونوں میں شریک تھے۔ غزوئہ بدر کے ساتھ دوسرے معرکوں میں بھی شریک ہوئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو شام کی طرف قاضی اور معلم بنا کر بھیجا۔ پہلے حمص میں قیام پذیر ہوئے بعد ازاں فلسطین کی طرف منتقل ہوگئے اور وہیں ’’رملہ‘‘ کے مقام پر وفات پائی اور بقول بعض ۳۴ہجری میں ۷۲ برس کی عمر پاکر بیت المقدس میں فوت ہوئے۔
تخریج :
أخرجه البخاري، الأذان، باب وجوب القراءة للإمام والمأموم، حديث:756، ومسلم، الصلاة، باب وجوب قراءة الفاتحة في كل ركعة، حديث:394، وابن حبان (الإحسان): 3 /139، حديث:1786، والدارقطني: 1 /322، وهو حديث صحيح، وحديث "لعلكم تقرؤون خلف إمامكم" أخرجه أحمد:5 /60، وأبوداود، الصلاة، حديث:823، والترمذي، الصلاة، حديث:247، وهوحديث صحيح.
1. یہ حدیث کھلا اور واضح ثبوت ہے کہ سورۂ فاتحہ پڑھے بغیر کسی کی بھی نماز نہیں ہوتی‘ خواہ امام ہو یا مقتدی یا کوئی اکیلا شخص۔ صحیح ترین مرفوع احادیث کی روشنی میں یہی مذہب حق اور مبنی برصداقت ہے۔ شوافع‘ اہل حدیث اور اہل ظاہر اسی طرف گئے ہیں کہ ہر نمازی کے لیے ہر نماز کی ہر رکعت میں سورئہ فاتحہ کا پڑھنا واجب ہے۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین میں سے جمہور علماء کا یہی مسلک ہے کہ نماز کی ہر رکعت میں ہر ایک کے لیے اس کا پڑھنا واجب ہے۔ اس میں امام اور مقتدی کا کوئی فرق نہیں اور نہ جہری اور سری نماز ہی کا۔ صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ امام کے پیچھے بھی سورئہ فاتحہ کا پڑھنا لازمی اور لابدی امر ہے۔ (صحیح مسلم‘ الصلاۃ‘ باب وجوب قراء ۃ الفاتحۃ… ‘ حدیث:۳۹۵‘ ۳۹۶) ابوداود‘ ترمذی اور نسائی وغیرہ میں حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے بعد صحابہ رضی اللہ عنہم سے پوچھا: ’’کیا تم امام کے پیچھے پڑھتے ہو؟‘‘ انھوں نے عرض کیا: جی ہاں۔ اس پر آپ نے فرمایا: ’’سورئہ فاتحہ کے سوا اور کچھ نہ پڑھا کرو کیونکہ اس کے بغیر نماز ہی نہیں ہوتی۔‘‘ اور دوسری احادیث سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ سورئہ فاتحہ کے بغیر نماز قطعاً نہیں ہوتی۔ 2. مولانا عبدالحی لکھنوی حنفی نے ’’امام الکلام‘‘ اور ’’التعلیق الممجد‘‘ میں لکھا ہے: ’’کسی بھی صحیح حدیث سے فاتحہ خلف الامام کی ممانعت ثابت نہیں اور اس سلسلے میں جو نقل کیا جاتا ہے وہ صحیح نہیں۔ صحیح یہ ہے کہ سری نمازوں میں اور جہری کے سکتات میں مقتدی کو امام کے پیچھے سورئہ فاتحہ پڑھنی چاہیے۔ محدثین کی ایک جماعت کا یہی مذہب ہے۔‘‘ ان کے علاوہ متقدمین و متأخرین علمائے احناف کی ایک جماعت دلائل کی بنا پر فاتحہ خلف الامام کی قائل رہی ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اور شاہ عبدالعزیز رحمہما اللہ اسی کے قائل تھے حتی کہ مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ وغیرہ نے بھی سری نمازوں کے علاوہ جہری کے سکتات میں فاتحہ خلف الامام کو جائز قرار دیا ہے جس کی باحوالہ تفصیل مولانا ارشادالحق اثری حفظہ اللہ کی کتاب ’’توضیح الکلام‘‘ کی جلد اول میں دیکھی جا سکتی ہے۔ راوئ حدیث: [حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ ] عبادہ کی ’’عین‘‘ پر ضمہ اور ’’با‘‘ مخفف ہے۔ انصار کے قبیلہ ٔخزرج کے فرد تھے۔ سرداران انصار میں نمایاں شخصیت کے حامل تھے۔ بیعت عقبہ اولیٰ اور ثانیہ دونوں میں شریک تھے۔ غزوئہ بدر کے ساتھ دوسرے معرکوں میں بھی شریک ہوئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو شام کی طرف قاضی اور معلم بنا کر بھیجا۔ پہلے حمص میں قیام پذیر ہوئے بعد ازاں فلسطین کی طرف منتقل ہوگئے اور وہیں ’’رملہ‘‘ کے مقام پر وفات پائی اور بقول بعض ۳۴ہجری میں ۷۲ برس کی عمر پاکر بیت المقدس میں فوت ہوئے۔