بلوغ المرام - حدیث 217

كِتَابُ الصَّلَاةِ بَابُ صِفَةِ الصَّلَاةِ صحيح وَعَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ - رضي الله عنه - قَالَ: صَلَّيْتُ مَعَ النَّبِيِّ - صلى الله عليه وسلم - فَوَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى يَدِهِ الْيُسْرَى عَلَى صَدْرِهِ. أَخْرَجَهُ ابْنُ خُزَيْمَةَ.

ترجمہ - حدیث 217

کتاب: نماز سے متعلق احکام و مسائل باب: نماز کی صفت کا بیان حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز ادا کی‘ آپ نے اپنا دایاں ہاتھ اپنے بائیں ہاتھ پر رکھ کر دونوں ہاتھ سینے پر باندھ لیے۔‘‘ (اسے ابن خزیمہ نے روایت کیا ہے۔)
تشریح : 1. اس حدیث سے دو مسئلوں کی وضاحت ہوتی ہے۔ پہلا مسئلہ تو یہ کہ نماز میں ہاتھ باندھ کر دست بستہ کھڑا ہونا مسنون ہے اور ہاتھ کھلے چھوڑنا غیر مسنون۔ شوافع‘ احناف اور حنابلہ سب اس پر متفق ہیں کہ نماز میں ہاتھ باندھنا ہی سنت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ علامہ ابن عبدالبر نے لکھا ہے کہ نبی ٔاکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے خلاف کوئی بھی عمل ثابت نہیں۔ جمہور صحابہ اور تابعین کا بھی یہی قول ہے۔ ابن المنذر وغیرہ نے امام مالک رحمہ اللہ سے اس کے سوا دوسرا کوئی قول نقل نہیں کیا بلکہ موطأ امام مالک میں بھی ہاتھ باندھنے کی روایت موجود ہے‘ تو پھر روایت پر عمل کرنا چاہیے۔ اس کے برعکس امام مالک رحمہ اللہ سے جو ہاتھ چھوڑنے کا ذکر ہے‘ وہ شاذ ہے‘ صحیح نہیں۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (التمھید:۲۰ / ۷۰. ۸۰) 2.اب رہا یہ مسئلہ کہ ہاتھ باندھے کہاں جائیں ‘ سینے پر یا زیر ناف؟ بعض حضرات زیر ناف باندھنے کے قائل و فاعل ہیں‘ مگر زیر ناف ہاتھ باندھنے والی حدیث ضعیف ہے‘ صحیح نہیں۔ مذکورہ بالا حدیث کو امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے اپنی ’’صحیح‘‘ میں درج کیا ہے جس کی تائید مسند احمد میں حضرت ہلب رضی اللہ عنہ کی حدیث سے ہوتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہاتھ سینے پر باندھتے تھے۔ (مسند أحمد: ۵ /۲۲۶) اور ایک روایت میں فوق السرۃ کے الفاظ بھی منقول ہیں۔ تحت السرۃکے مقابلے میں فوق السرۃ والی روایت سند کے اعتبار سے زیادہ صحیح اور قوی ہے۔ اور اہلحدیث علمائے کرام کے نزدیک قوی دلائل کی روشنی میں سینے پر ہاتھ باندھنا ہی راجح ہے اور تحت السرۃ‘ یعنی زیر ناف والی حدیث ضعیف ہے‘ قابل اعتبار نہیں۔ دیکھیے: (سنن أبي داود‘ الصلاۃ‘ باب وضع الیمنی علی الیسری في الصلاۃ‘ حدیث : ۷۵۶- ۷۵۸) راوئ حدیث: [حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ ] ان کی کنیت ابوہنیدہ یا ابوہندہ ہے۔ حجر کی ’’حا‘‘ پر ضمہ اور ’’جیم‘‘ ساکن ہے۔ جلیل القدر صحابی ہیں۔ ان کے والد حضر موت کے بادشاہوں میں سے تھے۔ جب یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنے وفد کے ساتھ حاضر ہوئے تو آپ نے (ان کے اعزاز میں) ان کے بیٹھنے کے لیے اپنی چادر مبارک بچھا دی اور ان کے اور ان کی اولاد کے حق میں برکت کی دعا فرمائی۔ حضر موت کے قبائل پر ان کو عامل مقرر فرمایا۔ کوفہ میں سکونت پذیر ہوئے اور خلافت معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور میں وفات پائی۔
تخریج : أخرجه ابن خزيمة:1 /243، حديث:479، وسنده ضعيف من أجل عنعنة الثوري، وللحديث شواهد كثيرة عند أحمد:5 /226 وغيره. 1. اس حدیث سے دو مسئلوں کی وضاحت ہوتی ہے۔ پہلا مسئلہ تو یہ کہ نماز میں ہاتھ باندھ کر دست بستہ کھڑا ہونا مسنون ہے اور ہاتھ کھلے چھوڑنا غیر مسنون۔ شوافع‘ احناف اور حنابلہ سب اس پر متفق ہیں کہ نماز میں ہاتھ باندھنا ہی سنت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ علامہ ابن عبدالبر نے لکھا ہے کہ نبی ٔاکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے خلاف کوئی بھی عمل ثابت نہیں۔ جمہور صحابہ اور تابعین کا بھی یہی قول ہے۔ ابن المنذر وغیرہ نے امام مالک رحمہ اللہ سے اس کے سوا دوسرا کوئی قول نقل نہیں کیا بلکہ موطأ امام مالک میں بھی ہاتھ باندھنے کی روایت موجود ہے‘ تو پھر روایت پر عمل کرنا چاہیے۔ اس کے برعکس امام مالک رحمہ اللہ سے جو ہاتھ چھوڑنے کا ذکر ہے‘ وہ شاذ ہے‘ صحیح نہیں۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (التمھید:۲۰ / ۷۰. ۸۰) 2.اب رہا یہ مسئلہ کہ ہاتھ باندھے کہاں جائیں ‘ سینے پر یا زیر ناف؟ بعض حضرات زیر ناف باندھنے کے قائل و فاعل ہیں‘ مگر زیر ناف ہاتھ باندھنے والی حدیث ضعیف ہے‘ صحیح نہیں۔ مذکورہ بالا حدیث کو امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے اپنی ’’صحیح‘‘ میں درج کیا ہے جس کی تائید مسند احمد میں حضرت ہلب رضی اللہ عنہ کی حدیث سے ہوتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہاتھ سینے پر باندھتے تھے۔ (مسند أحمد: ۵ /۲۲۶) اور ایک روایت میں فوق السرۃ کے الفاظ بھی منقول ہیں۔ تحت السرۃکے مقابلے میں فوق السرۃ والی روایت سند کے اعتبار سے زیادہ صحیح اور قوی ہے۔ اور اہلحدیث علمائے کرام کے نزدیک قوی دلائل کی روشنی میں سینے پر ہاتھ باندھنا ہی راجح ہے اور تحت السرۃ‘ یعنی زیر ناف والی حدیث ضعیف ہے‘ قابل اعتبار نہیں۔ دیکھیے: (سنن أبي داود‘ الصلاۃ‘ باب وضع الیمنی علی الیسری في الصلاۃ‘ حدیث : ۷۵۶- ۷۵۸) راوئ حدیث: [حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ ] ان کی کنیت ابوہنیدہ یا ابوہندہ ہے۔ حجر کی ’’حا‘‘ پر ضمہ اور ’’جیم‘‘ ساکن ہے۔ جلیل القدر صحابی ہیں۔ ان کے والد حضر موت کے بادشاہوں میں سے تھے۔ جب یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنے وفد کے ساتھ حاضر ہوئے تو آپ نے (ان کے اعزاز میں) ان کے بیٹھنے کے لیے اپنی چادر مبارک بچھا دی اور ان کے اور ان کی اولاد کے حق میں برکت کی دعا فرمائی۔ حضر موت کے قبائل پر ان کو عامل مقرر فرمایا۔ کوفہ میں سکونت پذیر ہوئے اور خلافت معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور میں وفات پائی۔