كِتَابُ الصَّلَاةِ بَابُ صِفَةِ الصَّلَاةِ صحيح وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: أَنَّ النَّبِيَّ - صلى الله عليه وسلم - كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ حَذْوَ [ص:81] مَنْكِبَيْهِ إِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاةَ، وَإِذَا كَبَّرَ لِلرُّكُوعِ، وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ. وَفِي حَدِيثِ أَبِي حُمَيْدٍ، عِنْدَ أَبِي دَاوُدَ: يَرْفَعُ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِيَ بِهِمَا مَنْكِبَيْهِ، ثُمَّ يُكَبِّرَ. وَلِمُسْلِمٍ عَنْ مَالِكِ بْنِ الْحُوَيْرِثِ - رضي الله عنه - نَحْوُ حَدِيثِ ابْنِ عُمَرَ، وَلَكِنْ قَالَ: حَتَّى يُحَاذِيَ بِهِمَا فُرُوعَ أُذُنَيْهِ.
کتاب: نماز سے متعلق احکام و مسائل
باب: نماز کی صفت کا بیان
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کا آغاز فرماتے تو اپنے دونوں ہاتھ اپنے کندھوں کے برابر تک اٹھاتے اور جب رکوع کے لیے اللہ اکبر کہتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے (تب بھی اسی طرح رفع الیدین کرتے تھے)۔ (بخاری و مسلم) اور ابوداود میں حضرت ابوحمید رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہے کہ اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھاتے حتی کہ وہ آپ کے کندھوں کے برابر آ جاتے‘ پھر اللہ اکبر کہتے۔ اور مسلم میں حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت کی طرح مروی ہے لیکن اس میں ہے کہ اپنے کانوں کے اوپر والے حصے تک اٹھاتے۔
تشریح :
1. تین جگہوں پر رفع الیدین کی احادیث اتنی زیادہ ہیں کہ جس کی مساوات و برابری نہیں کی جاسکتی اور اس قدر صحت کے ساتھ ثابت ہیں کہ رد نہیں کی جاسکتیں۔ان احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ تکبیرتحریمہ کے وقت‘ رکوع کو جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے ہوئے رفع الیدین مسنون ہے۔ 2. بعض احادیث سے دو رکعتوں کے بعد تیسری رکعت کی ابتدا میں بھی رفع الیدین ثابت ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (صحیح البخاري‘ الأذان‘ باب رفع الیدین إذا قام من الرکعتین‘ حدیث:۷۳۹‘ ومسند أحمد : ۲ /۱۴۵‘ و سنن أبي داود‘ الصلاۃ‘ باب من ذکر أنہ یرفع یدیہ إذا قام من الثنتین‘ حدیث:۷۴۳‘ ۷۴۴) اکثر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ کا اسی پر عمل ہے۔ امام شافعی‘ احمد‘ ابوثور‘ ابن مبارک‘ اسحٰق بن راہویہ اور صحیح روایت کے مطابق امام مالک رحمہم اللہ سے بھی یہی منقول ہے‘ بلکہ زاد المعاد اور التلخیص الحبیر وغیرہ میں مروی روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تادم زیست رفع الیدین کرتے رہے۔ خلفائے راشدین بلکہ باقی عشرۂ مبشرہ سے بھی رفع الیدین کرنا ثابت ہے۔ اس کے برعکس رفع الیدین نہ کرنے کی کوئی روایت صحیح سند سے ثابت نہیں۔ جس کی تفصیل فتح الباری‘ التلخیص الحبیر اور جلاء العینین في تخریج روایات البخاري في جزء رفع الیدین وغیرہ میں دیکھی جا سکتی ہے۔ حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی شہادت اس مسئلے میں اس بات کی دلیل ہے کہ رفع الیدین پر نبی ٔاکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہمیشہ عمل رہا۔ چنانچہ منقول ہے کہ حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ غزوئہ تبوک کے بعد ۹ ہجری میں دائرۂاسلام میں داخل ہوئے۔ (البدایۃ والنہایۃ:۵ /۷۵‘ وشرح العیني علی صحیح البخاري: ۹ / ۴۳) اور پھر واپس اپنے ملک چلے گئے۔ آیندہ سال جب دوبارہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تو وہ سخت سردی کا موسم تھا۔ انھوں نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو کپڑوں کے نیچے سے رفع الیدین کرتے دیکھا۔ یہ ۱۰ ہجری کے آخری مہینے تھے۔ اس کے بعد ۱۱ ہجری میں سرور دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا۔ اس سے معلوم ہوا کہ آپ زندگی کے آخری حصے تک رفع الیدین کرتے رہے۔ یہ عمل منسوخ ہوا نہ اس پر عمل متروک ہوا۔ اکثر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم بلکہ کوفے کے علاوہ باقی تمام بلاد اسلامیہ میں اس پر عمل رہا۔ فقہائے اسلام کی اکثریت نے اس کو پسند کیا ہے۔ بخاری و مسلم کے علاوہ سنن ابی داود‘ جامع ترمذی‘ سنن نسائی‘ سنن ابن ماجہ‘ سنن دارمی‘ موطأ امام مالک‘ مصنف عبدالرزاق‘ مصنف ابن ابی شیبہ‘ مسند احمد‘ صحیح ابن خزیمہ‘ صحیح ابن حبان‘ مسند ابی عوانہ‘ سنن دارقطنی اور سنن کبریٰ بیہقی وغیرہ میں بھی یہ حدیث موجود ہے۔
تخریج :
أخرجه البخاري، الأذان، باب رفع اليدين في التكبيرة الأولي مع الافتتاح سواء، حديث:735، ومسلم، الصلاة، باب استحباب رفع اليدين حذو المنكبين مع تكبيرة الإحرام والركوع، حديث:390، وحديث أبي حميد أخرجه أبوداود، الصلاة، حديث:730.
1. تین جگہوں پر رفع الیدین کی احادیث اتنی زیادہ ہیں کہ جس کی مساوات و برابری نہیں کی جاسکتی اور اس قدر صحت کے ساتھ ثابت ہیں کہ رد نہیں کی جاسکتیں۔ان احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ تکبیرتحریمہ کے وقت‘ رکوع کو جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے ہوئے رفع الیدین مسنون ہے۔ 2. بعض احادیث سے دو رکعتوں کے بعد تیسری رکعت کی ابتدا میں بھی رفع الیدین ثابت ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (صحیح البخاري‘ الأذان‘ باب رفع الیدین إذا قام من الرکعتین‘ حدیث:۷۳۹‘ ومسند أحمد : ۲ /۱۴۵‘ و سنن أبي داود‘ الصلاۃ‘ باب من ذکر أنہ یرفع یدیہ إذا قام من الثنتین‘ حدیث:۷۴۳‘ ۷۴۴) اکثر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ کا اسی پر عمل ہے۔ امام شافعی‘ احمد‘ ابوثور‘ ابن مبارک‘ اسحٰق بن راہویہ اور صحیح روایت کے مطابق امام مالک رحمہم اللہ سے بھی یہی منقول ہے‘ بلکہ زاد المعاد اور التلخیص الحبیر وغیرہ میں مروی روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تادم زیست رفع الیدین کرتے رہے۔ خلفائے راشدین بلکہ باقی عشرۂ مبشرہ سے بھی رفع الیدین کرنا ثابت ہے۔ اس کے برعکس رفع الیدین نہ کرنے کی کوئی روایت صحیح سند سے ثابت نہیں۔ جس کی تفصیل فتح الباری‘ التلخیص الحبیر اور جلاء العینین في تخریج روایات البخاري في جزء رفع الیدین وغیرہ میں دیکھی جا سکتی ہے۔ حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی شہادت اس مسئلے میں اس بات کی دلیل ہے کہ رفع الیدین پر نبی ٔاکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہمیشہ عمل رہا۔ چنانچہ منقول ہے کہ حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ غزوئہ تبوک کے بعد ۹ ہجری میں دائرۂاسلام میں داخل ہوئے۔ (البدایۃ والنہایۃ:۵ /۷۵‘ وشرح العیني علی صحیح البخاري: ۹ / ۴۳) اور پھر واپس اپنے ملک چلے گئے۔ آیندہ سال جب دوبارہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تو وہ سخت سردی کا موسم تھا۔ انھوں نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو کپڑوں کے نیچے سے رفع الیدین کرتے دیکھا۔ یہ ۱۰ ہجری کے آخری مہینے تھے۔ اس کے بعد ۱۱ ہجری میں سرور دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا۔ اس سے معلوم ہوا کہ آپ زندگی کے آخری حصے تک رفع الیدین کرتے رہے۔ یہ عمل منسوخ ہوا نہ اس پر عمل متروک ہوا۔ اکثر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم بلکہ کوفے کے علاوہ باقی تمام بلاد اسلامیہ میں اس پر عمل رہا۔ فقہائے اسلام کی اکثریت نے اس کو پسند کیا ہے۔ بخاری و مسلم کے علاوہ سنن ابی داود‘ جامع ترمذی‘ سنن نسائی‘ سنن ابن ماجہ‘ سنن دارمی‘ موطأ امام مالک‘ مصنف عبدالرزاق‘ مصنف ابن ابی شیبہ‘ مسند احمد‘ صحیح ابن خزیمہ‘ صحیح ابن حبان‘ مسند ابی عوانہ‘ سنن دارقطنی اور سنن کبریٰ بیہقی وغیرہ میں بھی یہ حدیث موجود ہے۔