كِتَابُ الصَّلَاةِ بَابُ صِفَةِ الصَّلَاةِ صحيح وَعَنْ عُمَرَ - رضي الله عنه - أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ: ((سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِكَ، تَبَارَكَ اسْمُكَ، وَتَعَالَى جَدُّكَ، وَلَا إِلَهَ غَيْرُكَ)). رَوَاهُ مُسْلِمٌ بِسَنَدٍ مُنْقَطِعٍ، وَالدَّارَقُطْنِيُّ مَوْصُولًا، وَهُوَ مَوْقُوفٌ. وَنَحْوُهُ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ مَرْفُوعًا عِنْدَ الْخَمْسَةِ. وَفِيهِ: وَكَانَ يَقُولُ بَعْدَ التَّكْبِيرِ: ((أَعُوذُ بِاللَّهِ السَّمِيعِ الْعَلِيمِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ، مِنْ هَمْزِهِ، وَنَفْخِهِ، وَنَفْثِهِ)).
کتاب: نماز سے متعلق احکام و مسائل
باب: نماز کی صفت کا بیان
حضرت عمر رضی اللہ عنہ (وقفے کے دوران میں) پڑھتے تھے:[سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَبِحَمْدِکَ …الخ] ’’اے اللہ! تو پاک ہے (ہر عیب اور ہر نقص سے۔) سب تعریفیں تیرے ہی لیے ہیں۔ بابرکت ہے تیرا نام اور بلند ہے تیری شان۔ اور تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔‘‘ (اسے مسلم نے منقطع اور دارقطنی نے موصول روایت کیا ہے اور یہ موقوف ہے۔) اورپانچوں نے حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کے حوالے سے اسی طرح روایت کیا ہے اور اس میں یہ بھی ذکر ہے کہ تکبیر تحریمہ کے بعد تَعَوُّذ (أَعُوذُ بِاللّٰہِ السَّمِیعِ الْعَلِیمِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیمِ مِنْ ھَمْزِہٖ وَ نَفْخِہٖ وَنَفْثِہٖ) پڑھتے تھے۔ ’’میں اللہ سمیع و علیم کی پناہ لیتا ہوں شیطان مردود سے‘ اس کے وسوسوں سے‘ اس کے پھونکنے سے‘ یعنی کبر و نخوت سے اور اس کے اشعار اور جادو سے۔‘‘
تشریح :
1. تکبیر تحریمہ کے بعد سورئہ فاتحہ سے پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے [اَللّٰھُمَّ! بَاعِدْ …الخ] والی دعا ثابت ہے۔ 2. بعض روایات کے مطابق [إِنِّي وَجَّھْتُ وَجْھِیَ… الخ] والی دعا اور [سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ … الخ] دونوں کو جمع بھی کیا جا سکتا ہے۔ [سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ] والی دعا مرفوعاً اور موقوفاً دونوں طرح ثابت ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے یہ دعا موقوفاً مروی ہے جبکہ سیدنا ابوسعید خدری‘ سیدہ عائشہ صدیقہ‘ سیدنا انس اور سیدنا جابر رضی اللہ عنہم سے مرفوعاً بھی ثابت ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ دعا مرفوعاً اور موقوفاً دونوں طرح صحیح ہے۔ شیخ البانی رحمہ اللہ نے اپنی مفصل أصل صفۃ صلاۃ النبي صلی اللہ علیہ وسلم میں تمام احادیث پر سیر حاصل بحث کی ہے اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے موقوف اثر کے بارے میں لکھا ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ لوگوں کی تعلیم کے لیے اس دعا کو بآواز بلند پڑھا کرتے تھے تاکہ سننے والے لوگ اسے سیکھ لیں اور یاد کر لیں‘ چنانچہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا اس دعا کو تعلیم کے لیے بآواز بلند پڑھنا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ سنت نبوی ہے۔ خود سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے یہ ممکن نہیں کہ استفتا ح کی اس قدر دعائیں ہونے کے باوجود اپنی طرف سے کوئی دعا پڑھیں۔ اور پھر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا خاموش رہنا بھی اس کا مؤید ہے۔ واللّٰہ أعلم۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں : (أصل صفۃ صلاۃ البني صلی اللہ علیہ وسلم : ۱ /۲۵۷، والقول المقبول‘ ص: ۳۴۶. ۳۵۰) ہمارے فاضل محقق زبیر علیزئی حفظہ اللہ نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے اور امام شوکانی رحمہ اللہ نے بھی شواہد کی وجہ سے اسے قابل عمل قرار دیا ہے‘ لہٰذا اس دعائے استفتاح کا پڑھنا بھی صحیح ہے‘ گو درجات حدیث میں اس کا تیسرا نمبر ہے لیکن یہ بھی صحیح ہے۔ 3. سورۂ فاتحہ کے شروع کرنے سے پہلے قرآن مجید کی موافقت کرتے ہوئے [أَعُوذُ بِاللّٰہِ …الخ ] کے پڑھنے کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا ہے‘ اس لیے مذکورہ تعوذ پڑھنا ضروری ہے۔
تخریج :
أخرجه مسلم، الصلاة، باب حجة من قال لا يجهر بالبسملة، حديث: 399، والدارقطني:1 /299، وحديث أبي سعيد أخرجه أبوداود، الصلاة، حديث: 775، والترمذي، الصلاة، حديث:242، وابن ماجه، إقامة الصلوات، حديث:807، والنسائي، الافتتاح، حديث:900، 901، وأحمد:1 /403، 404 و3 /50 و4 /80 و6 /156.
1. تکبیر تحریمہ کے بعد سورئہ فاتحہ سے پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے [اَللّٰھُمَّ! بَاعِدْ …الخ] والی دعا ثابت ہے۔ 2. بعض روایات کے مطابق [إِنِّي وَجَّھْتُ وَجْھِیَ… الخ] والی دعا اور [سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ … الخ] دونوں کو جمع بھی کیا جا سکتا ہے۔ [سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ] والی دعا مرفوعاً اور موقوفاً دونوں طرح ثابت ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے یہ دعا موقوفاً مروی ہے جبکہ سیدنا ابوسعید خدری‘ سیدہ عائشہ صدیقہ‘ سیدنا انس اور سیدنا جابر رضی اللہ عنہم سے مرفوعاً بھی ثابت ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ دعا مرفوعاً اور موقوفاً دونوں طرح صحیح ہے۔ شیخ البانی رحمہ اللہ نے اپنی مفصل أصل صفۃ صلاۃ النبي صلی اللہ علیہ وسلم میں تمام احادیث پر سیر حاصل بحث کی ہے اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے موقوف اثر کے بارے میں لکھا ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ لوگوں کی تعلیم کے لیے اس دعا کو بآواز بلند پڑھا کرتے تھے تاکہ سننے والے لوگ اسے سیکھ لیں اور یاد کر لیں‘ چنانچہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا اس دعا کو تعلیم کے لیے بآواز بلند پڑھنا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ سنت نبوی ہے۔ خود سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے یہ ممکن نہیں کہ استفتا ح کی اس قدر دعائیں ہونے کے باوجود اپنی طرف سے کوئی دعا پڑھیں۔ اور پھر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا خاموش رہنا بھی اس کا مؤید ہے۔ واللّٰہ أعلم۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں : (أصل صفۃ صلاۃ البني صلی اللہ علیہ وسلم : ۱ /۲۵۷، والقول المقبول‘ ص: ۳۴۶. ۳۵۰) ہمارے فاضل محقق زبیر علیزئی حفظہ اللہ نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے اور امام شوکانی رحمہ اللہ نے بھی شواہد کی وجہ سے اسے قابل عمل قرار دیا ہے‘ لہٰذا اس دعائے استفتاح کا پڑھنا بھی صحیح ہے‘ گو درجات حدیث میں اس کا تیسرا نمبر ہے لیکن یہ بھی صحیح ہے۔ 3. سورۂ فاتحہ کے شروع کرنے سے پہلے قرآن مجید کی موافقت کرتے ہوئے [أَعُوذُ بِاللّٰہِ …الخ ] کے پڑھنے کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا ہے‘ اس لیے مذکورہ تعوذ پڑھنا ضروری ہے۔