بلوغ المرام - حدیث 211

كِتَابُ الصَّلَاةِ بَابُ صِفَةِ الصَّلَاةِ صحيح وَعَنْ أَبِي حُمَيْدٍ السَّاعِدِيِّ - رضي الله عنه - قَالَ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ - صلى الله عليه وسلم - إِذَا كَبَّرَ جَعَلَ يَدَيْهِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ، وَإِذَا رَكَعَ أَمْكَنَ يَدَيْهِ مِنْ رُكْبَتَيْهِ، ثُمَّ هَصَرَ ظَهْرَهِ، فَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ اسْتَوَى حَتَّى يَعُودَ كُلُّ فَقَارٍ مَكَانَهُ، فَإِذَا سَجَدَ وَضَعَ يَدَيْهِ غَيْرَ مُفْتَرِشٍ وَلَا قَابِضِهِمَا، وَاسْتَقْبَلَ بِأَطْرَافِ أَصَابِعِ رِجْلَيْهِ الْقِبْلَةَ، وَإِذَا جَلَسَ فِي الرَّكْعَتَيْنِ جَلَسَ عَلَى رِجْلِهِ الْيُسْرَى وَنَصَبَ الْيُمْنَى، وَإِذَا جَلَسَ فِي الرَّكْعَةِ الْأَخِيرَةِ قَدَّمَ رِجْلَهُ الْيُسْرَى وَنَصَبَ الْأُخْرَى، وَقَعَدَ عَلَى مَقْعَدَتِهِ. أَخْرَجَهُ الْبُخَارِيُّ.

ترجمہ - حدیث 211

کتاب: نماز سے متعلق احکام و مسائل باب: نماز کی صفت کا بیان حضرت ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے‘ وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب تکبیر (اولیٰ) کہتے تو اپنے دونوں ہاتھ اپنے کندھوں کے برابر تک اٹھاتے اور جب رکوع کرتے تو اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنے گھٹنوں کو مضبوطی سے پکڑ لیتے تھے‘ پھر اپنی پشت مبارک جھکا لیتے‘ پھر جب اپنا سر رکوع سے اٹھاتے تو اس طرح سیدھے کھڑے ہوتے کہ ہر جوڑ اپنی اپنی جگہ پر لوٹ آتا۔ پھر (اس کے بعد) جب سجدہ فرماتے تو اپنے دونوں ہاتھ (زمین پر) اس طرح رکھتے کہ (بازو) زمین پر بچھے ہوتے نہ (پہلوؤں کی طرف) سمٹے ہوتے۔ اور آپ (حالت سجدہ میں) اپنے دونوں پاؤں کی انگلیاں قبلہ رخ کرتے۔ اور جب آپ دو رکعت پڑھ کر بیٹھتے تو بائیں پاؤں کے اوپر بیٹھتے اور دایاں پاؤں کھڑا رکھتے۔ اور جب آخری رکعت میں بیٹھتے تو اپنا بایاں پاؤں (دائیں ران کے نیچے سے) آگے بڑھا دیتے اور دایاں کھڑا رکھتے اور سرین پر بیٹھ جاتے۔ (اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔)
تشریح : 1. اس حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کی کیفیت بیان کی گئی ہے کہ آپ ارکان نماز کس طرح ادا فرماتے تھے‘ لہٰذا اہل ایمان کو اسی طرح نماز ادا کرنے کی حتی الامکان کوشش کرنی چاہیے۔ 2.آپ کا ارشاد گرامی ہے: [صَلُّوا کَمَا رَأَیْتُمُونِي أُصَلِّي] ’’نماز پڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔‘‘ (صحیح البخاري‘ الأذان‘ باب الأذان للمسافرین إذا کانوا جماعۃ…‘ حدیث:۶۳۱) ہر مسلمان کو اپنی پوری کوشش کرنی چاہیے کہ نماز اسی طرح آرام‘ سکون اور اطمینان سے ٹھہر ٹھہر کر ادا کرے جس طرح آپ نے عملاً تعلیم دی ہے۔ جلدی جلدی ارکان نماز ادا کر کے نماز کو خراب نہیں کرنا چاہیے۔ تنگ وقت میں جلدی جلدی نماز پڑھنے والے کو کوّے کی ٹھونگوں سے تشبیہ دے کر منافق کی نماز قرار دیا گیا ہے۔ (سنن أبي داود‘ الصلاۃ‘ باب صلاۃ من لایقیم صلبہ في الرکوع والسجود‘ حدیث:۸۶۲) 3.نمازیوں کو بہت فکر کرنی چاہیے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ نمازیں بھی پڑھیں اور حاصل بھی کچھ نہ ہو۔ ایسی نمازوں کا کیا فائدہ ہے؟ راوئ حدیث: [حضرت ابوحمیدالساعدی رضی اللہ عنہ ] ابو حمید (تصغیر کے ساتھ)‘ ان کا نام عمرو تھا۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان کا نام منذر بن سعد بن منذر تھا۔ بعض نے مالک انصاری خزرجی مدنی بھی نام بتایا ہے۔ خزرج کے باپ ساعدہ کی طرف منسوب ہونے کی وجہ سے ساعدی کہلائے۔ اُحد اور اس کے بعد کے غزوات میں شریک ہوئے۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور امارت کے آخر میں‘ یا یزید کے شروع دور ۶۱ ہجری میں فوت ہوئے۔
تخریج : أخرجه البخاري، الأذان، باب سنة الجلوس في التشهد، حديث:828. 1. اس حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کی کیفیت بیان کی گئی ہے کہ آپ ارکان نماز کس طرح ادا فرماتے تھے‘ لہٰذا اہل ایمان کو اسی طرح نماز ادا کرنے کی حتی الامکان کوشش کرنی چاہیے۔ 2.آپ کا ارشاد گرامی ہے: [صَلُّوا کَمَا رَأَیْتُمُونِي أُصَلِّي] ’’نماز پڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔‘‘ (صحیح البخاري‘ الأذان‘ باب الأذان للمسافرین إذا کانوا جماعۃ…‘ حدیث:۶۳۱) ہر مسلمان کو اپنی پوری کوشش کرنی چاہیے کہ نماز اسی طرح آرام‘ سکون اور اطمینان سے ٹھہر ٹھہر کر ادا کرے جس طرح آپ نے عملاً تعلیم دی ہے۔ جلدی جلدی ارکان نماز ادا کر کے نماز کو خراب نہیں کرنا چاہیے۔ تنگ وقت میں جلدی جلدی نماز پڑھنے والے کو کوّے کی ٹھونگوں سے تشبیہ دے کر منافق کی نماز قرار دیا گیا ہے۔ (سنن أبي داود‘ الصلاۃ‘ باب صلاۃ من لایقیم صلبہ في الرکوع والسجود‘ حدیث:۸۶۲) 3.نمازیوں کو بہت فکر کرنی چاہیے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ نمازیں بھی پڑھیں اور حاصل بھی کچھ نہ ہو۔ ایسی نمازوں کا کیا فائدہ ہے؟ راوئ حدیث: [حضرت ابوحمیدالساعدی رضی اللہ عنہ ] ابو حمید (تصغیر کے ساتھ)‘ ان کا نام عمرو تھا۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان کا نام منذر بن سعد بن منذر تھا۔ بعض نے مالک انصاری خزرجی مدنی بھی نام بتایا ہے۔ خزرج کے باپ ساعدہ کی طرف منسوب ہونے کی وجہ سے ساعدی کہلائے۔ اُحد اور اس کے بعد کے غزوات میں شریک ہوئے۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور امارت کے آخر میں‘ یا یزید کے شروع دور ۶۱ ہجری میں فوت ہوئے۔