كِتَابُ الصَّلَاةِ بَابُ صِفَةِ الصَّلَاةِ صحيح عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ - رضي الله عنه - أَنَّ النَّبِيَّ - صلى الله عليه وسلم - قَالَ: ((إِذَا قُمْتَ إِلَى الصَّلَاةِ فَأَسْبِغِ الْوُضُوءَ، ثُمَّ اسْتَقْبِلِ الْقِبْلَةَ، فَكَبِّرْ، ثُمَّ اقْرَأْ مَا تَيَسَّرَ مَعَكَ مِنَ الْقُرْآنِ، ثُمَّ ارْكَعْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ رَاكِعًا، ثُمَّ ارْفَعْ حَتَّى تَعْتَدِلَ قَائِمًا، ثُمَّ اسْجُدْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ سَاجِدًا، ثُمَّ ارْفَعْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ جَالِسًا، ثُمَّ اسْجُدْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ سَاجِدًا، ثُمَّ افْعَلْ ذَلِكَ فِي صَلَاتِكَ كُلِّهَا)). أَخْرَجَهُ السَّبْعَةُ، وَاللَّفْظُ لِلْبُخَارِيِّ. وَلِابْنِ مَاجَهْ بِإِسْنَادِ مُسْلِمٍ: ((حَتَّى تَطْمَئِنَّ قَائِمًا)). وَمِثْلُهُ فِي حَدِيثِ رِفَاعَةَ عِنْدَ أَحْمَدَ وَابْنِ حِبَّانَ وَفِي لَفْظٍ لِأَحْمَدَ: ((فَأَقِمْ صُلْبَكَ حَتَّى تَرْجِعَ الْعِظَامُ)). وَلِلنَّسَائِيِّ، وَأَبِي دَاوُدَ مِنْ حَدِيثِ رِفَاعَةَ بْنِ رَافِعٍ: ((إِنَّهَا لَنْ (3) تَتِمُّ صَلَاةُ أَحَدِكُمْ حَتَّى يُسْبِغَ الْوُضُوءَ كَمَا أَمَرَهُ اللَّهُ، ثُمَّ يُكَبِّرَ اللَّهَ، وَيَحْمَدَهُ، وَيُثْنِيَ عَلَيْهِ)). وَفِيهَا ((فَإِنْ كَانَ مَعَكَ قُرْآنٌ فَاقْرَأْ وَإِلَّا فَاحْمَدِ اللَّهَ، وَكَبِّرْهُ، وهلِّلْهُ)). وَلِأَبِي دَاوُدَ: ((ثُمَّ اقْرَأْ بِأُمِّ الْقُرْآنِ وَبِمَا شَاءَ اللَّهُ))وَلِابْنِ حِبَّانَ: ((ثُمَّ بِمَا شِئْتَ)).
کتاب: نماز سے متعلق احکام و مسائل
باب: نماز کی صفت کا بیان
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تم نماز ادا کرنے کے لیے کھڑا ہونے کا ارادہ کرو تو پہلے اچھی طرح وضو کر لو‘ پھر قبلہ رو ہو کر تکبیر (اللہ اکبر) کہو‘ پھر قرآن کا جو حصہ تم آسانی سے پڑھ سکتے ہو‘ پڑھو۔ پھر رکوع کرو اور پوری طرح اطمینان سے رکوع کرو‘ پھر (رکوع سے) سر اٹھاؤ اور پورے اطمینان سے کھڑے ہو۔ پھر سجدہ کرو اور پورے اطمینان کے ساتھ سجدہ کرو‘ پھر سجدے سے اپنا سر اٹھا کر پورے اطمینان سے بیٹھ جاؤ۔ پھر دوسرا سجدہ کرو اور پورے اطمینان سے سجدہ کرو۔ پھر اپنی ساری (باقی) نماز میں اسی طرح (اطمینان سے ارکان نماز ادا) کرو۔‘‘ (اسے ساتوں نے روایت کیا ہے اور یہ الفاظ بخاری کے ہیں۔) اور ابن ماجہ نے مسلم کی سند سے (رکوع سے کھڑے ہونے کے وقت) یہ الفاظ نقل کیے ہیں: ’’پورے اطمینان سے کھڑے ہو جاؤ۔‘‘ احمد اور ابن حبان میں رفاعہ بن رافع بن مالک رضی اللہ عنہما کی روایت بھی اسی طرح ہے۔ اور مسند احمد کی ایک روایت میں ہے: ’’اپنی کمر (پشت) کو سیدھا کرو یہاں تک کہ ہڈیاں (اپنے مقام پر) واپس آجائیں۔‘‘ نسائی اور ابوداود میں رفاعہ بن رافع رضی اللہ عنہما سے مروی ہے: ’’تم میں سے کسی کی نماز مکمل نہیں ہو سکتی حتی کہ وہ (اسی طرح) وضو کامل کر لے جس طرح اللہ تعالیٰ نے اسے حکم دیا ہے‘ پھر تکبیر کہے اور اللہ کی حمد و ثنا بیان کرے۔‘‘ اور اس روایت میں یہ بھی مذکور ہے: ’’اگر تجھے قرآن کا کچھ حصہ یاد ہو تو اسے پڑھ‘ بصورت دیگر الحمدللّٰہ‘ اللّٰہ أکبر اور لا إلٰہ إلا اللّٰہ پڑھا کر۔‘‘ابوداود میں ہے: ’’پھر سورئہ فاتحہ پڑھ اور مزید جو اللہ چاہے۔‘‘اور ابن حبان میں ہے: ’’پھر جو تم چاہو (پڑھو۔‘‘)
تشریح :
1. اس حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازی کو ارکان نماز پورے اطمینان اور سکون کے ساتھ ادا کرنے کی ہدایت فرمائی ہے‘ لہٰذا ہر رکن نماز کے اندر اور دو ارکان کے درمیانی وقفے میں اطمینان و اعتدال واجب ہے۔ 2. حدیث کے الفاظ: [ثُمَّ اقْرَأْ مَاتَیَسَّرَ] سے ظاہر ہوتا ہے کہ قراء ت قرآن واجب ہے۔ ایک دوسری روایت میں ثُمَّ اقْرَأْ بِأُمِّ الْقُرْآنِ کے الفاظ بھی منقول ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ مَاتَیَسَّرَ اور بِأُمِّ الْقُرْآنِ دونوں ایک ہی معنی دے رہے ہیں اور وہ سورۂ فاتحہ ہے۔ 3. اس حدیث میں نماز کی ترتیب اور اعتدال ارکان کی تعلیم دی گئی ہے۔ 4. امام‘ مقتدی اور منفرد سب کو سوچنا چاہیے کہ وہ کیا کر رہے ہیں اور اعتدال کو ملحوظ رکھ رہے ہیں یا نہیں؟ اگر نہیں تو نبی ٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے شخص کو بدترین چور اور ایسی نماز کو منافق کی نماز قرار دیا ہے۔ راوئ حدیث: [حضرت رفاعہ بن رافع بن مالک رضی اللہ عنہما ] ابومعاذ ان کی کنیت ہے‘ زرقی انصاری مدنی مشہور ہیں۔ جلیل القدر صحابی ہیں۔ یہ اپنے باپ کے ساتھ بیعت عقبہ میں حاضر تھے۔ ان کے والد انصار میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے ہیں۔ رفاعہ بن رافع رضی اللہ عنہما بدر و اُحُد اور باقی سب غزوات میں بھی شریک رہے ہیں۔ جنگ جمل و صفین میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے طرف داروں میں شامل تھے۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی خلافت کے شروع میں ۴۱ ہجری میں وفات پائی۔
تخریج :
أخرجه البخاري، الأذان، باب أمر النبي صلي الله عليه وسلم الذي لا يتم ركوعه بالإعادة، حديث:793، ومسلم، الصلاة، باب وجوب قراءة الفاتحة في كل ركعة، حديث:397، وأبوداود، الصلاة، حديث:856، والترمذي، الصلاة، حديث:303، والنسائي، الافتتاح، حديث:885، وابن ماجه، إقامة الصلوات، حديث:1060، وأخرجه أحمد:2 /437، وحديث رفاعة أخرجه أحمد: 4 /340، وابن حبان (الإحسان):1784، والنسائي، التطبيق، حديث:1137، وأبوداود، الصلاة، حديث:858.
1. اس حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازی کو ارکان نماز پورے اطمینان اور سکون کے ساتھ ادا کرنے کی ہدایت فرمائی ہے‘ لہٰذا ہر رکن نماز کے اندر اور دو ارکان کے درمیانی وقفے میں اطمینان و اعتدال واجب ہے۔ 2. حدیث کے الفاظ: [ثُمَّ اقْرَأْ مَاتَیَسَّرَ] سے ظاہر ہوتا ہے کہ قراء ت قرآن واجب ہے۔ ایک دوسری روایت میں ثُمَّ اقْرَأْ بِأُمِّ الْقُرْآنِ کے الفاظ بھی منقول ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ مَاتَیَسَّرَ اور بِأُمِّ الْقُرْآنِ دونوں ایک ہی معنی دے رہے ہیں اور وہ سورۂ فاتحہ ہے۔ 3. اس حدیث میں نماز کی ترتیب اور اعتدال ارکان کی تعلیم دی گئی ہے۔ 4. امام‘ مقتدی اور منفرد سب کو سوچنا چاہیے کہ وہ کیا کر رہے ہیں اور اعتدال کو ملحوظ رکھ رہے ہیں یا نہیں؟ اگر نہیں تو نبی ٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے شخص کو بدترین چور اور ایسی نماز کو منافق کی نماز قرار دیا ہے۔ راوئ حدیث: [حضرت رفاعہ بن رافع بن مالک رضی اللہ عنہما ] ابومعاذ ان کی کنیت ہے‘ زرقی انصاری مدنی مشہور ہیں۔ جلیل القدر صحابی ہیں۔ یہ اپنے باپ کے ساتھ بیعت عقبہ میں حاضر تھے۔ ان کے والد انصار میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے ہیں۔ رفاعہ بن رافع رضی اللہ عنہما بدر و اُحُد اور باقی سب غزوات میں بھی شریک رہے ہیں۔ جنگ جمل و صفین میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے طرف داروں میں شامل تھے۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی خلافت کے شروع میں ۴۱ ہجری میں وفات پائی۔