بلوغ المرام - حدیث 2

کِتَابُ الطَّھَارَۃِ بَابُ الْمِيَاهِ حسن وَعَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ - رضي الله عنه - قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم: ((إِنَّ الْمَاءَ طَهُورٌ لاَ يُنَجِّسُهُ شَيْءٌ)). أَخْرَجَهُ الثَّلَاثَةُ وَصَحَّحَهُ أَحْمَدُ.

ترجمہ - حدیث 2

کتاب: طہارت سے متعلق احکام ومسائل باب: پانی کے احکام ومسائل (مختلف ذرائع سے حاصل شدہ پانی کا بیان) حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’پانی پاک ہے‘ اسے کوئی چیز ناپاک نہیں کرتی۔‘‘ (اس حدیث کوتینوں نے روایت کیا ہے اور امام احمد نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔)
تشریح : 1. حدیث کا مقصود یہ ہے کہ پانی پاک ہے محض نجاست کے واقع ہونے سے ناپاک نہیں ہوتا‘ خواہ اس کی مقدار کم ہو یا زیادہ۔ امام مالک رحمہ اللہ ‘ اہل ظاہر اور ایک قول کے مطابق امام احمد رحمہ اللہ کی رائے بھی یہی ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ نے مشروط بات کی ہے کہ جب تک اوصاف ثلاثہ میں سے کوئی وصف تبدیل نہ ہو پانی ناپاک نہیں ہوتا جیسا کہ آگے حضرت ابوامامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں بیان ہوا ہے۔ 2.حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی یہ حدیث ایک خاص واقعہ سے متعلق ہے اور وہ یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ کیا ہم بِئربُضاعہ کے پانی سے وضو کر سکتے ہیں؟ بِئربُضاعہ ایک پرانا کنواں تھا جس میں حیض والے کپڑے‘ کتوں کے گوشت کے ٹکڑے اور بدبودار چیزیں گر جاتی تھیں۔ آپ نے اس کے جواب میں فرمایا: ’’پانی پاک ہے۔‘‘(سنن أبي داود‘ الطھارۃ‘ باب ماجاء في بئر بضاعۃ‘ حدیث:۶۶) بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ [الماء] میں جو الف لام ہے یہ عہد کا ہے جس کے معنی یہ ہوں گے کہ سائل کے ذہن میں جس پانی کے متعلق سوال تھا اس کے بارے میں آپ نے یہ جواب دیا اور وہ بئر بضاعہ کا پانی تھا۔ اس کنوئیں کی چوڑائی چھ ہاتھ تھی۔ اس میں پانی جب زیادہ ہو تا تو ناف سے اوپر کی حد تک رہتا تھا اور جب کم ہوتا تو ناف سے نیچے کی حد تک ہو جاتا جیسا کہ امام ابوداود رحمہ اللہ نے اپنی سنن میں اس کا ذکر کیا ہے۔ 3.یہ حدیث صرف اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جب پانی اتنی کثیر مقدار میں ہو تو محض نجاست کا اس میں گر جانا اسے ناپاک نہیں کرتا۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ مطلق پانی میں نجاست گرنے سے وہ ناپاک نہیں ہوتا‘یعنی یہ حدیث صرف کثیر پانی کے متعلق ہے‘ قلیل کے بارے میں نہیں۔راویٔ حدیث: [حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ ] ابوسعید کنیت ہے اور ان کا اسم گرامی سعد بن مالک بن سنان رضی اللہ عنہ ہے۔ انصار کے قبیلہ ٔخزرج سے ان کا تعلق تھا۔ کبار صحابہ رضی اللہ عنہم میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ خدرہ ایک انصاری قبیلہ ہے جس کی طرف یہ منسوب ہیں۔ تقریباً چھیاسی (۸۶) برس کی طویل عمر پائی اور ۷۴ ہجری کے آغاز میں وفات پائی… رضی اللہ عنہ … ان سے بھی بکثرت احادیث مروی ہیں۔اور انھوں نے کچھ عرصے تک مفتی کے فرائض بھی سرانجام دیے۔
تخریج : إخرجه أبوداود، الطهارة، باب ما جاء في بئربضاعة، حديث:66، والترمذي، الطهارة، حديث:66، وقال:"هذا حديث حسن" والنسائي الطهارة، حديث:328، وأحمد:3 /31، وصححه أحمد وابن معين وغيرهم، انظر التلخيص الحبير:1 /12-14. 1. حدیث کا مقصود یہ ہے کہ پانی پاک ہے محض نجاست کے واقع ہونے سے ناپاک نہیں ہوتا‘ خواہ اس کی مقدار کم ہو یا زیادہ۔ امام مالک رحمہ اللہ ‘ اہل ظاہر اور ایک قول کے مطابق امام احمد رحمہ اللہ کی رائے بھی یہی ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ نے مشروط بات کی ہے کہ جب تک اوصاف ثلاثہ میں سے کوئی وصف تبدیل نہ ہو پانی ناپاک نہیں ہوتا جیسا کہ آگے حضرت ابوامامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں بیان ہوا ہے۔ 2.حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی یہ حدیث ایک خاص واقعہ سے متعلق ہے اور وہ یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ کیا ہم بِئربُضاعہ کے پانی سے وضو کر سکتے ہیں؟ بِئربُضاعہ ایک پرانا کنواں تھا جس میں حیض والے کپڑے‘ کتوں کے گوشت کے ٹکڑے اور بدبودار چیزیں گر جاتی تھیں۔ آپ نے اس کے جواب میں فرمایا: ’’پانی پاک ہے۔‘‘(سنن أبي داود‘ الطھارۃ‘ باب ماجاء في بئر بضاعۃ‘ حدیث:۶۶) بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ [الماء] میں جو الف لام ہے یہ عہد کا ہے جس کے معنی یہ ہوں گے کہ سائل کے ذہن میں جس پانی کے متعلق سوال تھا اس کے بارے میں آپ نے یہ جواب دیا اور وہ بئر بضاعہ کا پانی تھا۔ اس کنوئیں کی چوڑائی چھ ہاتھ تھی۔ اس میں پانی جب زیادہ ہو تا تو ناف سے اوپر کی حد تک رہتا تھا اور جب کم ہوتا تو ناف سے نیچے کی حد تک ہو جاتا جیسا کہ امام ابوداود رحمہ اللہ نے اپنی سنن میں اس کا ذکر کیا ہے۔ 3.یہ حدیث صرف اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جب پانی اتنی کثیر مقدار میں ہو تو محض نجاست کا اس میں گر جانا اسے ناپاک نہیں کرتا۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ مطلق پانی میں نجاست گرنے سے وہ ناپاک نہیں ہوتا‘یعنی یہ حدیث صرف کثیر پانی کے متعلق ہے‘ قلیل کے بارے میں نہیں۔راویٔ حدیث: [حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ ] ابوسعید کنیت ہے اور ان کا اسم گرامی سعد بن مالک بن سنان رضی اللہ عنہ ہے۔ انصار کے قبیلہ ٔخزرج سے ان کا تعلق تھا۔ کبار صحابہ رضی اللہ عنہم میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ خدرہ ایک انصاری قبیلہ ہے جس کی طرف یہ منسوب ہیں۔ تقریباً چھیاسی (۸۶) برس کی طویل عمر پائی اور ۷۴ ہجری کے آغاز میں وفات پائی… رضی اللہ عنہ … ان سے بھی بکثرت احادیث مروی ہیں۔اور انھوں نے کچھ عرصے تک مفتی کے فرائض بھی سرانجام دیے۔