كِتَابُ الصَّلَاةِ بَابُ الْمَسَاجِدِ صحيح وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ - رضي الله عنه - قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم: ((قَاتَلَ اللَّهُ الْيَهُودَ: اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ مَسَاجِدَ)). مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ. وَزَادَ مُسْلِمُ: ((وَالنَّصَارَى)). وَلَهُمَا: مِنْ حَدِيثِ عَائِشَةَ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: ((كَانُوا إِذَا مَاتَ فِيهِمْ الرَّجُلُ الصَّالِحُ بَنَوْا عَلَى قَبْرِهِ مَسْجِدًا)). وَفِيهِ: ((أُولَئِكَ شِرَارُ الْخَلْقِ)).
کتاب: نماز سے متعلق احکام و مسائل
باب: مساجد کا بیان
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ یہودیوں کو غارت و برباد کرے‘ انھوں نے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا تھا۔‘‘ (بخاری و مسلم) مسلم نے ’’نصاریٰ‘‘ کے لفظ کا اضافہ بھی نقل کیا ہے۔نیز بخاری و مسلم میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے: ’’جب ان میں صالح آدمی فوت ہو جاتا تو یہ اس کی قبر کو سجدہ گاہ بنا لیتے۔‘‘ اس حدیث میں یہ الفاظ بھی ہیں: ’’یہ بدترین مخلوق ہیں۔‘‘
تشریح :
1. قرآن کے بیان کے مطابق یہ اہل کتاب ہیں جنھیں آسمانی کتب دی گئیں مگر ان بدبختوں نے اپنے انبیائے کرام علیہم السلام کی وفات کے بعد ان کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا اور ان سے اپنی حاجات طلب کرنا شروع کر دیں۔ 2.اس فعل حرام کا ارتکاب جس طرح یہودیوں نے کیا اسی طرح عیسائیوں نے بھی کیا۔ اس طرح یہ شرک جلی کے مرتکب ہوئے جو خالق کائنات کی نظر میں سنگین ترین اور ناقابل معافی جرم ہے۔ 3.اب نام کے مسلمانوں کو غور کرنا اور سوچنا چاہیے کہ قبروں کو سجدہ گاہ بنا کر کن گمراہ لوگوں کی یاد تازہ کر رہے ہیں اور کس جرم کا ارتکاب کر کے شرار الخلق کے زمرے میں شامل ہو رہے ہیں؟ 4. یہ فعل بت پرستی کے مشابہ ہے۔ یہی کام غیر کرے تو قابل صد لعنت اور اگر مسلمان کہلانے والا کرے تو باعث اجر و ثواب! یہ اپنے آپ کو فریب اور دھوکے میں مبتلا کرنے کے سوا اور کیا ہے؟ اس قبر پرستی کے جو نتائج آج برآمد ہو رہے ہیں وہ سب کے سامنے روز روشن کی طرح عیاں ہیں کہ بت پرستوں کی تہذیب غالب آرہی ہے‘ ان کا تمدن ہر سو چھایا ہوا ہے‘ ان کے طور طریقے اپنائے جا رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ایسے افعال قبیحہ سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ 5. قبروں کو سجدہ گاہ بنانے کے دو مطلب ہو سکتے ہیں: ایک تو یہ کہ جو افعال مساجد میں صرف اللہ کے لیے انجام دیے جاتے ہیں وہی قبروں پر انجام دیے جائیں‘ مثلاً: سجدہ اور رکوع کیا جائے یا ہاتھ باندھ کر تعظیماً ان کے سامنے قیام کیا جائے۔ اور دوسرا یہ کہ قبروں کے نزدیک مساجد تعمیر کی جائیں اور میت کی تعظیم و تکریم کی بنا پر دوسری مساجد سے انھیں متبرک سمجھا جائے‘ یہ شرعاً درست نہیں ہے۔
تخریج :
أخرجه البخاري، الصلاة، باب (55)، حديث:437، ومسلم، المساجد، باب النهي عن بناء المساجد على القبور...، حديث: 530، وحديث عائشة أخرجه البخاري، الصلاة، حديث:427، ومسلم، المساجد، حديث:528.
1. قرآن کے بیان کے مطابق یہ اہل کتاب ہیں جنھیں آسمانی کتب دی گئیں مگر ان بدبختوں نے اپنے انبیائے کرام علیہم السلام کی وفات کے بعد ان کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا اور ان سے اپنی حاجات طلب کرنا شروع کر دیں۔ 2.اس فعل حرام کا ارتکاب جس طرح یہودیوں نے کیا اسی طرح عیسائیوں نے بھی کیا۔ اس طرح یہ شرک جلی کے مرتکب ہوئے جو خالق کائنات کی نظر میں سنگین ترین اور ناقابل معافی جرم ہے۔ 3.اب نام کے مسلمانوں کو غور کرنا اور سوچنا چاہیے کہ قبروں کو سجدہ گاہ بنا کر کن گمراہ لوگوں کی یاد تازہ کر رہے ہیں اور کس جرم کا ارتکاب کر کے شرار الخلق کے زمرے میں شامل ہو رہے ہیں؟ 4. یہ فعل بت پرستی کے مشابہ ہے۔ یہی کام غیر کرے تو قابل صد لعنت اور اگر مسلمان کہلانے والا کرے تو باعث اجر و ثواب! یہ اپنے آپ کو فریب اور دھوکے میں مبتلا کرنے کے سوا اور کیا ہے؟ اس قبر پرستی کے جو نتائج آج برآمد ہو رہے ہیں وہ سب کے سامنے روز روشن کی طرح عیاں ہیں کہ بت پرستوں کی تہذیب غالب آرہی ہے‘ ان کا تمدن ہر سو چھایا ہوا ہے‘ ان کے طور طریقے اپنائے جا رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ایسے افعال قبیحہ سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ 5. قبروں کو سجدہ گاہ بنانے کے دو مطلب ہو سکتے ہیں: ایک تو یہ کہ جو افعال مساجد میں صرف اللہ کے لیے انجام دیے جاتے ہیں وہی قبروں پر انجام دیے جائیں‘ مثلاً: سجدہ اور رکوع کیا جائے یا ہاتھ باندھ کر تعظیماً ان کے سامنے قیام کیا جائے۔ اور دوسرا یہ کہ قبروں کے نزدیک مساجد تعمیر کی جائیں اور میت کی تعظیم و تکریم کی بنا پر دوسری مساجد سے انھیں متبرک سمجھا جائے‘ یہ شرعاً درست نہیں ہے۔