بلوغ المرام - حدیث 184

كِتَابُ الصَّلَاةِ بَابُ سُتْرَةِ الْمُصَلِّي صحيح وَعَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ - رضي الله عنه - قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم: ((إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ إِلَى شَيْءٍ يَسْتُرُهُ مِنَ النَّاسِ، فَأَرَادَ أَحَدٌ أَنْ يَجْتَازَ بَيْنَ يَدَيْهِ فَلْيَدْفَعْهُ، فَإِنْ أَبَى فَلْيُقَاتِلْهُ، فَإِنَّمَا هُوَ شَيْطَانٌ)). مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ. وَفِي رِوَايَةٍ: ((فَإِنَّ مَعَهُ الْقَرِينَ)).

ترجمہ - حدیث 184

کتاب: نماز سے متعلق احکام و مسائل باب: نمازی کے سترے کا بیان حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تم میں سے کوئی شخص سترہ قائم کر کے نماز پڑھنے لگے اور کوئی آدمی اس کے سامنے (سترے اور نمازی کے درمیان) سے گزرنے لگے تو وہ (نمازی) اسے روکنے کی کوشش کرے۔ اگر وہ (گزرنے والا پھر بھی) باز نہ آئے تو اس سے لڑائی کرے کیونکہ وہ شیطان (بصورت انسان) ہے۔‘‘ (بخاری و مسلم) اور ایک روایت میں ہے:’’ اس کے ساتھ اس کا ساتھی (شیطان) ہوتاہے۔‘‘
تشریح : 1. نمازی کے سامنے سے گزرنا جب کہ اس نے سترہ قائم کیا ہو مکروہ ہے اور گزرنے والے کو روکنا واجب ہے یا مستحب و مندوب۔ 2.ظاہر یہ کے نزدیک تو زور اور شدت کے ساتھ اسے روکنا واجب ہے۔ انھوں نے حدیث کے ظاہر الفاظ سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے اور یہی حدیث ان کی دلیل ہے۔ باقی سب کے نزدیک یہ مستحب ہے۔ 3.نمازی‘ گزرنے والے کو اشارے سے روکنے کی کوشش کرے‘ اس کے باوجود اگر وہ گزرنے پر بضد ہو تو ذرا سختی سے دھکا دے کر روکے‘ پھر بھی وہ باز نہ آئے تو اسے مارے۔ 4.یہ اسی صورت میں ہے جبکہ نمازی نے اپنے سامنے سترہ قائم کر رکھا ہو۔ اگر سترہ قائم نہیں تو پھر اس نمازی کا قصور ہے۔ 5.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دوران نماز میں اتنے عمل سے نماز نہیں ٹوٹتی۔
تخریج : أخرجه البخاري، الصلاة، باب يرد المصلي من مربين يديه، حديث:509، ومسلم، الصلاة، باب منع الماربين يدي المصلي، حديث:505، وانظر حديث:506، وفيه (فإن معه القرين) لكن من حديث عبدالله بن عمر. 1. نمازی کے سامنے سے گزرنا جب کہ اس نے سترہ قائم کیا ہو مکروہ ہے اور گزرنے والے کو روکنا واجب ہے یا مستحب و مندوب۔ 2.ظاہر یہ کے نزدیک تو زور اور شدت کے ساتھ اسے روکنا واجب ہے۔ انھوں نے حدیث کے ظاہر الفاظ سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے اور یہی حدیث ان کی دلیل ہے۔ باقی سب کے نزدیک یہ مستحب ہے۔ 3.نمازی‘ گزرنے والے کو اشارے سے روکنے کی کوشش کرے‘ اس کے باوجود اگر وہ گزرنے پر بضد ہو تو ذرا سختی سے دھکا دے کر روکے‘ پھر بھی وہ باز نہ آئے تو اسے مارے۔ 4.یہ اسی صورت میں ہے جبکہ نمازی نے اپنے سامنے سترہ قائم کر رکھا ہو۔ اگر سترہ قائم نہیں تو پھر اس نمازی کا قصور ہے۔ 5.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دوران نماز میں اتنے عمل سے نماز نہیں ٹوٹتی۔