كِتَابُ الصَّلَاةِ بَابُ سُتْرَةِ الْمُصَلِّي صحيح وَعَنْ أَبِي ذَرٍّ - رضي الله عنه - قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم: ((يَقْطَعُ صَلَاةَ الْمَرْءِ الْمُسْلِمِ - إِذَا لَمْ يَكُنْ بَيْنَ يَدَيْهِ مِثْلُ مُؤْخِرَةِ الرَّحْلِ - الْمَرْأَةُ، وَالْحِمَارُ، وَالْكَلْبُ الْأَسْوَدُ ... )) الْحَدِيثَ. وَفِيهِ: ((الْكَلْبُ الْأَسْوَدِ شَيْطَانٌ)). أَخْرَجَهُ مُسْلِمٌ. وَلَهُ: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ - رضي الله عنه - نَحْوُهُ دُونَ: ((الْكَلْبِ)). وَلِأَبِي دَاوُدَ، وَالنَّسَائِيِّ: عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا- نَحْوُهُ، دُونَ آخِرِهِ. وَقَيَّدَ الْمَرْأَةَ بِالْحَائِضِ.
کتاب: نماز سے متعلق احکام و مسائل
باب: نمازی کے سترے کا بیان
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مسلمان مرد کی نماز کو عورت‘ گدھا اور کالا کتا توڑ دیتے ہیں جب کہ اس کے آگے پالان کے پچھلے حصے کے برابر سترہ نہ ہو۔‘‘ یہ لمبی حدیث ہے۔ اس میں یہ الفاظ بھی مروی ہیں: ’’کالا کتا شیطان ہوتا ہے۔‘‘ (اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔)اور مسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت بھی اسی طرح ہے مگر اس میں کتے کا ذکر نہیں ہے‘ نیز ابوداود اور نسائی نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی اسی طرح نقل کیا ہے مگر اس میں حدیث کا آخری حصہ نہیں ہے۔ اور عورت کے متعلق بالغہ ہونے کی قید اور شرط بھی ذکر کی ہے۔
تشریح :
1. سترے کی مشروعیت کی حکمت یہ ہے کہ نمازی کے خشوع و خضوع میں فرق نہ پڑے اور شیطان وسوسے ڈال کر نماز کا ثواب کم یا ضائع نہ کر دے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سترے کو شیطان سے بچاؤ کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ اگر نمازی کے آگے سترہ موجود ہو تو سترے سے ماوراء گزرنے والا کوئی بھی انسان یا حیوان انسان کے خشوع و خضوع کو کم کرتا ہے نہ ہی اس سے نماز باطل ہوتی ہے۔ اس بات پر اہل علم کا اجماع ہے۔ اور یہ بات بھی متفق علیہ ہے کہ امام کا سترہ مقتدیوں کے لیے کافی ہے‘ ہر شخص کو نماز باجماعت میں الگ سے سترہ رکھنے کی ضرورت نہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سترہ رکھنے کا حکم دیا ہے‘ تاہم صحت نماز کے لیے سترہ شرط نہیں ہے‘ اگرچہ نہ ہونے کی وجہ سے نماز کے خشوع و خضوع اور ثواب میں کمی آ جاتی ہے۔ مذکورہ حدیث میں یہ مسئلہ بیان ہوا ہے کہ اگر کسی نے سترہ قائم نہ کیا یا اس کے اور سترے کے درمیان سے عورت‘ گدھا یا کالا کتا گزر گیا تو نماز باطل ہو جائے گی۔ اس حدیث میں قطع صلاۃ کے مفہوم کے تعین میں اہل علم کے درمیان اختلاف ہے: اہل علم کے ایک گروہ نے قطع صلاۃ کے اس حکم کو منسوخ قرار دیا ہے اور حدیث [لاَیَقْطَعُ الصَّلاَۃَ شَيْئٌ] ’’نماز کو کوئی چیز قطع نہیں کرتی۔‘‘ (سنن أبي داود‘ حدیث:۷۱۹) کو اس کا ناسخ کہا ہے۔ لیکن ان کا دعوائے نسخ بلادلیل ہے جیسا کہ امام نووی اور ابن حجر رحمہما اللہ نے کہا ہے۔ (المجموع:۳ /۲۵۱) شیخ البانی رحمہ اللہ نے حدیث [لاَیَقْطَعُ الصَّلاَۃَ شَيْئٌ] کو ضعیف قرار دیا ہے اور قطع صلاۃ والی روایت کو صحیح قرار دیا ہے‘ لہٰذا نسخ تو تب ثابت ہو گا جب دونوں روایات کو صحیح تسلیم کریں۔ لیکن اگر اس حدیث کو صحیح بھی مان لیا جائے‘ تب بھی نسخ کی بجائے دونوں حدیثوں کے مابین تطبیق اور جمع کی صورت نکالیں گے جیسا کہ معروف قاعدہ ہے کہ نصوص کے تعارض کی صورت میں اگر جمع ممکن ہو تو سب سے پہلے جمع کریں گے کہ مذکورہ حدیث کے منطوق کا لحاظ رکھتے ہوئے ہم کہیں گے کہ ان تین چیزوں کا حصر ہے کہ ان سے نماز ٹوٹ جاتی ہے اور باقی سے خشوع و خضوع میں فرق آجاتا ہے۔ شیخ احمد محمد شاکر رحمہ اللہ نے محلی ابن حزم (۱ /۱۴) کے حاشیے میں نسخ والا موقف اختیار کیا ہے لیکن جن روایات کو بنیاد بنایا ہے وہ ضعیف ہیں۔ 2. اہل علم کے دوسرے گروہ کا کہنا ہے کہ مذکورہ حدیث میں قطع سے نماز کا باطل ہونا مراد نہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ نماز کے خشوع و خضوع میں کمی آجاتی ہے اور نماز کی برکت ختم ہو جاتی ہے۔ 3. اہل علم کے تیسرے گروہ نے حدیث کا ظاہری مفہوم مراد لیا کہ نماز باطل ہو جاتی ہے۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ نماز کی برکت تو سترہ نہ ہونے کی صورت میں مرد کے گزرنے سے بھی ختم ہو جاتی ہے اور خشوع و خضوع میں کمی آ جاتی ہے۔ اگر یہ بات نہ ہوتی تو پھر نمازی کے آگے سے گزرنے والے مرد کو سختی سے روکنے اور اسے گناہ گار کہنے کی کوئی وجہ نہیں تھی‘ لہٰذا ان تین چیزوں کا بطور خاص ذکر کرنا اپنے اندر ایک زائد مفہوم رکھتا ہے اور وہ یہ ہے کہ ان کے گزرنے سے نماز باطل ہو جاتی ہے اور دیگر چیزوں کے گزرنے سے خشوع و خضوع میں کمی آ جاتی ہے‘ ورنہ یہ تحصیل حاصل ہو گی اور حصر بے معنی ہو گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ممکن نہیں۔ پھر اس موقف کی تائید سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کی حدیث کے ان الفاظ سے بھی ہوتی ہے جنھیں شیخ البانی رحمہ اللہ نے الصحیحۃ میں ذکر کیا ہے‘ وہ الفاظ یہ ہیں: [تُعَادُ الصَّلاَۃُ مِنْ مَمَرِّالْحِمَارِ وَالْمَرْأَۃِ وَالْکَلْبِ الْأَسْوَدِ] ’’گدھے‘ عورت اور سیاہ فام کتے کے گزرنے سے نماز لوٹائی جائے۔‘‘ (صحیح ابن خزیمۃ وابن حبان بحوالہ الصحیحۃ:۷ /۹۵۹‘ حدیث:۳۳۲۳) یہی موقف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں سے سیدنا انس‘ سیدنا ابوہریرہ‘ سیدنا ابن عباس‘ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہم وغیرہ کا ہے۔ تابعین میں سے حسن بصری‘ ابوالاحوص اور ائمہ میں سے امام احمد رحمہ اللہ اور متأخرین میں سے امام شوکانی اور شیخ البانی رحمہما اللہ ان مذکورہ تین چیزوں کے آگے سے گزرنے پر نماز کے باطل ہونے کے قائل ہیں۔ مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں: (أصل صفۃ صلاۃ النبي:۱ /۱۳۰‘ ومحلٰی ابن حزم:۴ /۸‘ وفتاویٰ الدین الخالص:۳ /۵۸۱)4. یاد رہے عورت سے مراد بالغ عورت ہے جیسا کہ دوسری روایت میں صراحت ہے ۔ واللّٰہ أعلم۔ 5.اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ انھی تین چیزوں کے نمازی کے آگے سے گزرنے سے نماز کیوں باطل ہوتی ہے؟ اس کی سب سے بڑی وجہ اور حکمت یہ ہے کہ شارع علیہ السلام نے انھی تین چیزوں کو خاص کیا ہے۔ بعض علماء نے اس کی وجہ یہ بتائی ہے کہ یہ تینوں چیزیں وجود شیطان اور اس کی فتنہ انگیزی کی زیادہ گمان کی جاتی ہیں‘ دوسری چیزوں کی بہ نسبت ان تینوں سے نماز کے فاسد ہونے کا زیادہ امکان ہے۔ امام ترمذی نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت نقل کی ہے کہ عورت چھپانے کی چیز ہے‘ چنانچہ جب یہ گھر سے باہر نکلتی ہے تو شیطان اس کی طرف جھانکتا ہے۔ (جامع الترمذي‘ الرضاع‘ باب استشراف الشیطان المرأۃ إذا خرجت‘ حدیث:۱۱۷۳) اور صحیح مسلم میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے کہ عورت آتی ہے تو بصورت شیطان آتی ہے اور جب واپس جاتی ہے تب بھی شیطان کی صورت میں جاتی ہے۔ (صحیح مسلم‘ النکاح‘ باب ندب من رأی امرأۃ…، حدیث:۱۴۰۳) اور گدھے کی آواز کے متعلق وارد ہے کہ گدھا شیطان کو دیکھ کر آواز نکالتا ہے۔ (سنن أبي داود‘ الأدب‘ باب في الدیک والبھائم‘ حدیث:۵۱۰۲) اور جہاں تک کتے کا تعلق ہے تو اس کے متعلق تو حدیث میں [اَلْکَلْبُ الْأَسْوَدُ شَیْطَانٌ] کی وضاحت موجود ہے۔ مطلق کتے کی خباثت بھی جانی پہچانی ہے کہ جہاں کتا ہوتا ہے وہاں رحمت کے فرشتے داخل نہیں ہوتے۔ (صحیح مسلم‘ اللباس والزینۃ‘ باب تحریم تصویر صورۃ الحیوان…‘ حدیث:۲۱۰۶) اور جس شخص نے ایسا کتا پالا جس کی شرع میں اجازت نہ ہو تو اس نے ہر روز اپنے اجر و ثواب میں سے دو قیراط کی کمی کر لی۔ (صحیح البخاري‘ الذبائح والصید‘ باب من اقتنی کلباً لیس بکلب صید أوماشیۃ‘ حدیث: ۵۴۸۰- ۵۴۸۲) ھذا ما عندنا واللّٰہ أعلم۔
تخریج :
أخرجه مسلم، الصلاة، باب قدر ما يستر المصلي، حديث:510، وحديث أبي هريرة أخرجه مسلم، الصلاة، حديث: 511، وحديث ابن عباس أخرجه أبوداود، الصلاة، حديث:703، والنسائي، الصلاة، حديث:752، وسنده صحيح.
1. سترے کی مشروعیت کی حکمت یہ ہے کہ نمازی کے خشوع و خضوع میں فرق نہ پڑے اور شیطان وسوسے ڈال کر نماز کا ثواب کم یا ضائع نہ کر دے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سترے کو شیطان سے بچاؤ کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ اگر نمازی کے آگے سترہ موجود ہو تو سترے سے ماوراء گزرنے والا کوئی بھی انسان یا حیوان انسان کے خشوع و خضوع کو کم کرتا ہے نہ ہی اس سے نماز باطل ہوتی ہے۔ اس بات پر اہل علم کا اجماع ہے۔ اور یہ بات بھی متفق علیہ ہے کہ امام کا سترہ مقتدیوں کے لیے کافی ہے‘ ہر شخص کو نماز باجماعت میں الگ سے سترہ رکھنے کی ضرورت نہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سترہ رکھنے کا حکم دیا ہے‘ تاہم صحت نماز کے لیے سترہ شرط نہیں ہے‘ اگرچہ نہ ہونے کی وجہ سے نماز کے خشوع و خضوع اور ثواب میں کمی آ جاتی ہے۔ مذکورہ حدیث میں یہ مسئلہ بیان ہوا ہے کہ اگر کسی نے سترہ قائم نہ کیا یا اس کے اور سترے کے درمیان سے عورت‘ گدھا یا کالا کتا گزر گیا تو نماز باطل ہو جائے گی۔ اس حدیث میں قطع صلاۃ کے مفہوم کے تعین میں اہل علم کے درمیان اختلاف ہے: اہل علم کے ایک گروہ نے قطع صلاۃ کے اس حکم کو منسوخ قرار دیا ہے اور حدیث [لاَیَقْطَعُ الصَّلاَۃَ شَيْئٌ] ’’نماز کو کوئی چیز قطع نہیں کرتی۔‘‘ (سنن أبي داود‘ حدیث:۷۱۹) کو اس کا ناسخ کہا ہے۔ لیکن ان کا دعوائے نسخ بلادلیل ہے جیسا کہ امام نووی اور ابن حجر رحمہما اللہ نے کہا ہے۔ (المجموع:۳ /۲۵۱) شیخ البانی رحمہ اللہ نے حدیث [لاَیَقْطَعُ الصَّلاَۃَ شَيْئٌ] کو ضعیف قرار دیا ہے اور قطع صلاۃ والی روایت کو صحیح قرار دیا ہے‘ لہٰذا نسخ تو تب ثابت ہو گا جب دونوں روایات کو صحیح تسلیم کریں۔ لیکن اگر اس حدیث کو صحیح بھی مان لیا جائے‘ تب بھی نسخ کی بجائے دونوں حدیثوں کے مابین تطبیق اور جمع کی صورت نکالیں گے جیسا کہ معروف قاعدہ ہے کہ نصوص کے تعارض کی صورت میں اگر جمع ممکن ہو تو سب سے پہلے جمع کریں گے کہ مذکورہ حدیث کے منطوق کا لحاظ رکھتے ہوئے ہم کہیں گے کہ ان تین چیزوں کا حصر ہے کہ ان سے نماز ٹوٹ جاتی ہے اور باقی سے خشوع و خضوع میں فرق آجاتا ہے۔ شیخ احمد محمد شاکر رحمہ اللہ نے محلی ابن حزم (۱ /۱۴) کے حاشیے میں نسخ والا موقف اختیار کیا ہے لیکن جن روایات کو بنیاد بنایا ہے وہ ضعیف ہیں۔ 2. اہل علم کے دوسرے گروہ کا کہنا ہے کہ مذکورہ حدیث میں قطع سے نماز کا باطل ہونا مراد نہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ نماز کے خشوع و خضوع میں کمی آجاتی ہے اور نماز کی برکت ختم ہو جاتی ہے۔ 3. اہل علم کے تیسرے گروہ نے حدیث کا ظاہری مفہوم مراد لیا کہ نماز باطل ہو جاتی ہے۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ نماز کی برکت تو سترہ نہ ہونے کی صورت میں مرد کے گزرنے سے بھی ختم ہو جاتی ہے اور خشوع و خضوع میں کمی آ جاتی ہے۔ اگر یہ بات نہ ہوتی تو پھر نمازی کے آگے سے گزرنے والے مرد کو سختی سے روکنے اور اسے گناہ گار کہنے کی کوئی وجہ نہیں تھی‘ لہٰذا ان تین چیزوں کا بطور خاص ذکر کرنا اپنے اندر ایک زائد مفہوم رکھتا ہے اور وہ یہ ہے کہ ان کے گزرنے سے نماز باطل ہو جاتی ہے اور دیگر چیزوں کے گزرنے سے خشوع و خضوع میں کمی آ جاتی ہے‘ ورنہ یہ تحصیل حاصل ہو گی اور حصر بے معنی ہو گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ممکن نہیں۔ پھر اس موقف کی تائید سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کی حدیث کے ان الفاظ سے بھی ہوتی ہے جنھیں شیخ البانی رحمہ اللہ نے الصحیحۃ میں ذکر کیا ہے‘ وہ الفاظ یہ ہیں: [تُعَادُ الصَّلاَۃُ مِنْ مَمَرِّالْحِمَارِ وَالْمَرْأَۃِ وَالْکَلْبِ الْأَسْوَدِ] ’’گدھے‘ عورت اور سیاہ فام کتے کے گزرنے سے نماز لوٹائی جائے۔‘‘ (صحیح ابن خزیمۃ وابن حبان بحوالہ الصحیحۃ:۷ /۹۵۹‘ حدیث:۳۳۲۳) یہی موقف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں سے سیدنا انس‘ سیدنا ابوہریرہ‘ سیدنا ابن عباس‘ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہم وغیرہ کا ہے۔ تابعین میں سے حسن بصری‘ ابوالاحوص اور ائمہ میں سے امام احمد رحمہ اللہ اور متأخرین میں سے امام شوکانی اور شیخ البانی رحمہما اللہ ان مذکورہ تین چیزوں کے آگے سے گزرنے پر نماز کے باطل ہونے کے قائل ہیں۔ مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں: (أصل صفۃ صلاۃ النبي:۱ /۱۳۰‘ ومحلٰی ابن حزم:۴ /۸‘ وفتاویٰ الدین الخالص:۳ /۵۸۱)4. یاد رہے عورت سے مراد بالغ عورت ہے جیسا کہ دوسری روایت میں صراحت ہے ۔ واللّٰہ أعلم۔ 5.اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ انھی تین چیزوں کے نمازی کے آگے سے گزرنے سے نماز کیوں باطل ہوتی ہے؟ اس کی سب سے بڑی وجہ اور حکمت یہ ہے کہ شارع علیہ السلام نے انھی تین چیزوں کو خاص کیا ہے۔ بعض علماء نے اس کی وجہ یہ بتائی ہے کہ یہ تینوں چیزیں وجود شیطان اور اس کی فتنہ انگیزی کی زیادہ گمان کی جاتی ہیں‘ دوسری چیزوں کی بہ نسبت ان تینوں سے نماز کے فاسد ہونے کا زیادہ امکان ہے۔ امام ترمذی نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت نقل کی ہے کہ عورت چھپانے کی چیز ہے‘ چنانچہ جب یہ گھر سے باہر نکلتی ہے تو شیطان اس کی طرف جھانکتا ہے۔ (جامع الترمذي‘ الرضاع‘ باب استشراف الشیطان المرأۃ إذا خرجت‘ حدیث:۱۱۷۳) اور صحیح مسلم میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے کہ عورت آتی ہے تو بصورت شیطان آتی ہے اور جب واپس جاتی ہے تب بھی شیطان کی صورت میں جاتی ہے۔ (صحیح مسلم‘ النکاح‘ باب ندب من رأی امرأۃ…، حدیث:۱۴۰۳) اور گدھے کی آواز کے متعلق وارد ہے کہ گدھا شیطان کو دیکھ کر آواز نکالتا ہے۔ (سنن أبي داود‘ الأدب‘ باب في الدیک والبھائم‘ حدیث:۵۱۰۲) اور جہاں تک کتے کا تعلق ہے تو اس کے متعلق تو حدیث میں [اَلْکَلْبُ الْأَسْوَدُ شَیْطَانٌ] کی وضاحت موجود ہے۔ مطلق کتے کی خباثت بھی جانی پہچانی ہے کہ جہاں کتا ہوتا ہے وہاں رحمت کے فرشتے داخل نہیں ہوتے۔ (صحیح مسلم‘ اللباس والزینۃ‘ باب تحریم تصویر صورۃ الحیوان…‘ حدیث:۲۱۰۶) اور جس شخص نے ایسا کتا پالا جس کی شرع میں اجازت نہ ہو تو اس نے ہر روز اپنے اجر و ثواب میں سے دو قیراط کی کمی کر لی۔ (صحیح البخاري‘ الذبائح والصید‘ باب من اقتنی کلباً لیس بکلب صید أوماشیۃ‘ حدیث: ۵۴۸۰- ۵۴۸۲) ھذا ما عندنا واللّٰہ أعلم۔