بلوغ المرام - حدیث 177

كِتَابُ الصَّلَاةِ بَابُ شُرُوطِ الصَّلَاةِ صحيح وَعَنْ ابْنِ عُمَرَ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا-[قَالَ]: قُلْتُ لِبِلَالٍ: كَيْفَ رَأَيْتَ النَّبِيَّ - صلى الله عليه وسلم - يَرُدَّ عَلَيْهِمْ حِينَ يُسَلِّمُونَ عَلَيْهِ، وَهُوَ يُصَلِّي? قَالَ: يَقُولُ هَكَذَا، وَبَسَطَ كَفَّهُ. أَخْرَجَهُ أَبُو دَاوُدَ، وَالتِّرْمِذِيُّ وَصَحَّحَهُ.

ترجمہ - حدیث 177

کتاب: نماز سے متعلق احکام و مسائل باب: شرائط نماز کا بیان حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا: آپ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کس طرح جواب دیتے ہوئے دیکھا‘ جب کہ آپ نماز پڑھ رہے ہوتے اور لوگ آپ کو سلام کہتے؟ انھوں نے کہاکہ آپ اس طرح کرتے۔ اور اپنا ہاتھ پھیلایا۔ (اسے ابوداود اور ترمذی نے روایت کیا ہے اور ترمذی نے صحیح قرار دیا ہے۔)
تشریح : 1. یہ حدیث اس پر دلیل ہے کہ نماز میں سلام کا جواب اشارے سے دینا مشروع ہے۔ بہت سے لوگوں کی یہی رائے ہے۔ کچھ ایسے بھی ہیں جو نماز میں سلام کا جواب دینا ممنوع سمجھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ یہ اس وقت کی بات ہے جب نماز میں جواب دینا جائز تھا۔ بعد میں جب نماز کی حالت میں گفتگو اور کلام کرنا حرام کر دیا گیا تو اسی وقت سے سلام کا جواب بھی حرام ہوگیا۔ اور اس لیے کہ یہ اشارہ معنوی کلام ہے۔ مگر قابل غور بات یہ ہے کہ اگر یہ اس موقع کی بات ہوتی جبکہ نماز میں سلام کا جواب جائز تھا تو پھر اشارے سے سلام کے جواب کی کیا ضرورت تھی؟ 2. گفتگو کی ممانعت اور اشارے سے سلام کا جواب تو اس بات کی دلیل ہے کہ جب نماز میں بات چیت کرنا حرام تھا اس وقت اشارے سے جواب جائز تھا۔ صحیح بات یہی ہے کہ بلاریب و تردد نماز کی حالت میں اشارے سے سلام کا جواب دینا جائز ہے۔ 3. اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ باہر سے آنے والے نمازی کے لیے نماز میں مصروف نمازیوں کو سلام کرنا درست اور جائز ہے‘ البتہ جواب کلام سے نہیں بلکہ اشارے سے دیا جائے گا۔ 4. اس اشارے کی نوعیت کیا ہونی چاہیے؟ اس بارے میں مسند احمد میں حضرت صہیب رضی اللہ عنہ کی حدیث سے اور جامع الترمذی میں حضرت ابن عمر کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ہاتھ یا انگلی کے اشارے سے سلام کا جواب دیتے تھے۔ دیکھیے: (مسند أحمد: ۲ /۱۰‘ وجامع الترمذي‘ الصلاۃ‘ باب ماجاء في الإشارۃ في الصلاۃ‘ حدیث:۳۶۸)
تخریج : أخرجه أبوداود، الصلاة، باب رد السلام في الصلاة، حديث:927، والترمذي، الصلاة، حديث:368. 1. یہ حدیث اس پر دلیل ہے کہ نماز میں سلام کا جواب اشارے سے دینا مشروع ہے۔ بہت سے لوگوں کی یہی رائے ہے۔ کچھ ایسے بھی ہیں جو نماز میں سلام کا جواب دینا ممنوع سمجھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ یہ اس وقت کی بات ہے جب نماز میں جواب دینا جائز تھا۔ بعد میں جب نماز کی حالت میں گفتگو اور کلام کرنا حرام کر دیا گیا تو اسی وقت سے سلام کا جواب بھی حرام ہوگیا۔ اور اس لیے کہ یہ اشارہ معنوی کلام ہے۔ مگر قابل غور بات یہ ہے کہ اگر یہ اس موقع کی بات ہوتی جبکہ نماز میں سلام کا جواب جائز تھا تو پھر اشارے سے سلام کے جواب کی کیا ضرورت تھی؟ 2. گفتگو کی ممانعت اور اشارے سے سلام کا جواب تو اس بات کی دلیل ہے کہ جب نماز میں بات چیت کرنا حرام تھا اس وقت اشارے سے جواب جائز تھا۔ صحیح بات یہی ہے کہ بلاریب و تردد نماز کی حالت میں اشارے سے سلام کا جواب دینا جائز ہے۔ 3. اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ باہر سے آنے والے نمازی کے لیے نماز میں مصروف نمازیوں کو سلام کرنا درست اور جائز ہے‘ البتہ جواب کلام سے نہیں بلکہ اشارے سے دیا جائے گا۔ 4. اس اشارے کی نوعیت کیا ہونی چاہیے؟ اس بارے میں مسند احمد میں حضرت صہیب رضی اللہ عنہ کی حدیث سے اور جامع الترمذی میں حضرت ابن عمر کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ہاتھ یا انگلی کے اشارے سے سلام کا جواب دیتے تھے۔ دیکھیے: (مسند أحمد: ۲ /۱۰‘ وجامع الترمذي‘ الصلاۃ‘ باب ماجاء في الإشارۃ في الصلاۃ‘ حدیث:۳۶۸)