بلوغ المرام - حدیث 173

كِتَابُ الصَّلَاةِ بَابُ شُرُوطِ الصَّلَاةِ صحيح وَعَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ - رضي الله عنه - قَالَ: إِنْ كُنَّا لَنَتَكَلَّمُ فِي الصَّلَاةِ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ - صلى الله عليه وسلم - يُكَلِّمُ أَحَدُنَا صَاحِبَهُ بِحَاجَتِهِ، حَتَّى نَزَلَتْ: {حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَى وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ} [الْبَقَرَة: 238] ، فَأُمِرْنَا بِالسُّكُوتِ، وَنُهِينَا عَنِ الْكَلَامِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ، وَاللَّفْظُ لِمُسْلِمٍ.

ترجمہ - حدیث 173

کتاب: نماز سے متعلق احکام و مسائل باب: شرائط نماز کا بیان حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ہم دوران نماز میں ایک دوسرے سے بات چیت کر لیا کرتے تھے اور اپنی ضرورت و حاجت ایک دوسرے سے بیان کر دیتے تھے تاآنکہ یہ آیت نازل ہو گئی: ﴿حَافِظُوْا عَلَی الصَّلَوَاتِ وَالصَّلاَۃِ الْوُسْطٰی وَقُوْمُوا لِلّٰہِ قٰنِتِیْنَ﴾’’نمازوں کی اور بالخصوص درمیانی نماز (عصر) کی حفاظت کرو۔ اور اللہ کے سامنے خاموشی سے کھڑے ہو۔‘‘ تو ہمیں خاموش رہنے کا حکم دیا گیا اور نماز میں گفتگو اور کلام کرنے سے منع کر دیا گیا۔ (بخاری و مسلم- یہ الفاظ مسلم کے ہیں۔)
تشریح : 1. اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ نماز میں ہر قسم کی گفتگو اور بات چیت ممنوع ہے۔ 2.آغاز اسلام میں کلام کی اجازت تھی جسے بعد میں ممنوع قرار دے دیا گیا۔ راوئ حدیث: [زید بن ارقم رضی اللہ عنہ ] انصار کے قبیلۂ خزرج میں سے ہیں ‘اس لیے انصاری خزرجی کہلائے۔ ان کی کنیت ابو عمرو ہے۔ پہلی مرتبہ غزوۂ خندق میں شامل ہوئے۔ نبی ٔاکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سترہ غزوات میں شریک ہوئے۔ معرکۂ صفین کے موقع پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے طرف داروں میں سے تھے بلکہ ان کے مخصوص اصحاب میں شامل تھے۔ کوفہ میں سکونت اختیار کی اور ۶۶ہجری میں فوت ہوئے۔
تخریج : أخرجه البخاري، العمل في الصلاة، باب ما ينهي من الكلام في الصلاة، حديث:1200، ومسلم، المساجد، باب تحريم الكلام في الصلاة ونسخ ما كان من إباحته، حديث:539. 1. اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ نماز میں ہر قسم کی گفتگو اور بات چیت ممنوع ہے۔ 2.آغاز اسلام میں کلام کی اجازت تھی جسے بعد میں ممنوع قرار دے دیا گیا۔ راوئ حدیث: [زید بن ارقم رضی اللہ عنہ ] انصار کے قبیلۂ خزرج میں سے ہیں ‘اس لیے انصاری خزرجی کہلائے۔ ان کی کنیت ابو عمرو ہے۔ پہلی مرتبہ غزوۂ خندق میں شامل ہوئے۔ نبی ٔاکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سترہ غزوات میں شریک ہوئے۔ معرکۂ صفین کے موقع پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے طرف داروں میں سے تھے بلکہ ان کے مخصوص اصحاب میں شامل تھے۔ کوفہ میں سکونت اختیار کی اور ۶۶ہجری میں فوت ہوئے۔