بلوغ المرام - حدیث 170

كِتَابُ الصَّلَاةِ بَابُ شُرُوطِ الصَّلَاةِ صحيح وَعَنْ أَبِي سَعِيدٍ - رضي الله عنه - قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم: ((إِذَا جَاءَ أَحَدُكُمْ الْمَسْجِدَ، فَلْيَنْظُرْ، فَإِنْ رَأَى فِي نَعْلَيْهِ أَذًى أَوْ قَذَرًا فَلْيَمْسَحْهُ، وَلْيُصَلِّ فِيهِمَا)). أَخْرَجَهُ أَبُو دَاوُدَ، وَصَحَّحَهُ ابْنُ خُزَيْمَةَ.

ترجمہ - حدیث 170

کتاب: نماز سے متعلق احکام و مسائل باب: شرائط نماز کا بیان حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تم میں سے کوئی مسجد میں آئے تو (مسجد میں داخل ہونے سے پہلے) اسے چاہیے کہ (اپنے جوتے) دیکھ لے۔ اگر جوتوں میں کوئی گندگی یا ناپاک چیز لگی ہوئی ہو تو اسے صاف کردے اور ان میں نماز پڑھ لے۔‘‘ (اسے ابوداود نے روایت کیا ہے اور ابن خزیمہ نے صحیح قرار دیا ہے۔)
تشریح : 1. یہ حدیث واضح دلیل ہے کہ جوتے پہن کر نماز پڑھنا جائز ہے بشرطیکہ جوتے پاک صاف ہوں۔ 2.جوتے پر لگی ہوئی نجاست کو رگڑ کر صاف کرنے سے جوتا پاک اور صاف ہو جاتا ہے۔ 3.حدیث کے بظاہر الفاظ سے یہی مترشح ہوتا ہے کہ نجاست خشک ہو یا تر دونوں کا حکم یکساں ہے۔ 4. اس ارشاد نبوی کا سبب یہ ہے کہ ایک مرتبہ آپ نے جوتا پہنے ہوئے نماز ادا فرمائی۔ آپ کو اس کا علم نہیں تھا کہ جوتا ناپاک ہے اور اس کے نیچے گندگی اور نجاست لگی ہوئی ہے۔ دوران نماز ہی میں جبریل امین علیہ السلام نے آپ کو مطلع فرمایا کہ آپ کے جوتے نجاست سے آلودہ ہیں۔ آپ نے نماز ہی میں جوتے اتار دیے اور نماز جاری رکھی۔ مقتدیوں نے بھی فعل نبوی کی اتباع میں اپنے جوتے اتار دیے اور نماز پڑھتے رہے۔ نماز سے فارغ ہو کر آپ نے صحابہ سے جوتے اتارنے کی وجہ دریافت فرمائی۔ انھوں نے جواب میں عرض کیا کہ ہم نے آپ کی اتباع میں جوتے اتارے ہیں‘ پھر آپ نے اپنا جوتا اتارنے کی وجہ بتائی۔ (مسند أحمد: ۳ /۲۰‘ و سنن أبي داود‘ الصلاۃ‘ باب الصلاۃ في النعل‘ حدیث:۶۵۰) 5 اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ نمازی کو اگر نماز کے آغاز کے وقت اس کا علم نہ ہو سکا ہو کہ اس کے کپڑے یا جوتے وغیرہ پر نجاست لگی ہوئی ہے اور دوران نماز میں کسی طرح علم ہو جائے تو وہ اس ناپاک چیز کو اسی حالت میں اتار کر نماز کو پورا کر لے تو نماز بالکل صحیح ہوگی۔
تخریج : أخرجه أبوداود، الصلاة، باب الصلاة في النعل، حديث:650، وابن خزيمة، حديث:1017، وابن حبان(الموارد)، حديث:360، والحاكم:1 /260 وصححه على شرط مسلم، ووافقه الذهبي. 1. یہ حدیث واضح دلیل ہے کہ جوتے پہن کر نماز پڑھنا جائز ہے بشرطیکہ جوتے پاک صاف ہوں۔ 2.جوتے پر لگی ہوئی نجاست کو رگڑ کر صاف کرنے سے جوتا پاک اور صاف ہو جاتا ہے۔ 3.حدیث کے بظاہر الفاظ سے یہی مترشح ہوتا ہے کہ نجاست خشک ہو یا تر دونوں کا حکم یکساں ہے۔ 4. اس ارشاد نبوی کا سبب یہ ہے کہ ایک مرتبہ آپ نے جوتا پہنے ہوئے نماز ادا فرمائی۔ آپ کو اس کا علم نہیں تھا کہ جوتا ناپاک ہے اور اس کے نیچے گندگی اور نجاست لگی ہوئی ہے۔ دوران نماز ہی میں جبریل امین علیہ السلام نے آپ کو مطلع فرمایا کہ آپ کے جوتے نجاست سے آلودہ ہیں۔ آپ نے نماز ہی میں جوتے اتار دیے اور نماز جاری رکھی۔ مقتدیوں نے بھی فعل نبوی کی اتباع میں اپنے جوتے اتار دیے اور نماز پڑھتے رہے۔ نماز سے فارغ ہو کر آپ نے صحابہ سے جوتے اتارنے کی وجہ دریافت فرمائی۔ انھوں نے جواب میں عرض کیا کہ ہم نے آپ کی اتباع میں جوتے اتارے ہیں‘ پھر آپ نے اپنا جوتا اتارنے کی وجہ بتائی۔ (مسند أحمد: ۳ /۲۰‘ و سنن أبي داود‘ الصلاۃ‘ باب الصلاۃ في النعل‘ حدیث:۶۵۰) 5 اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ نمازی کو اگر نماز کے آغاز کے وقت اس کا علم نہ ہو سکا ہو کہ اس کے کپڑے یا جوتے وغیرہ پر نجاست لگی ہوئی ہے اور دوران نماز میں کسی طرح علم ہو جائے تو وہ اس ناپاک چیز کو اسی حالت میں اتار کر نماز کو پورا کر لے تو نماز بالکل صحیح ہوگی۔