كِتَابُ الصَّلَاةِ بَابُ شُرُوطِ الصَّلَاةِ صحيح وَعَنْ عَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ - رضي الله عنه - قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - يُصَلِّي عَلَى رَاحِلَتِهِ حَيْثُ تَوَجَّهَتْ بِهِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ. زَادَ الْبُخَارِيُّ: يُومِئُ بِرَأْسِهِ، وَلَمْ يَكُنْ يَصْنَعُهُ فِي الْمَكْتُوبَةِ. وَلِأَبِي دَاوُدَ: مِنْ حَدِيثِ أَنَسٍ: كَانَ إِذَا سَافَرَ فَأَرَادَ أَنْ يَتَطَوَّعَ اسْتَقْبَلَ بِنَاقَتِهِ الْقِبْلَةِ، فَكَبَّرَ، ثُمَّ صَلَّى حَيْثُ كَانَ وَجْهُ رِكَابِهِ. وَإِسْنَادُهُ حَسَنٌ.
کتاب: نماز سے متعلق احکام و مسائل
باب: شرائط نماز کا بیان
حضرت عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی اونٹنی پر نماز پڑھتے دیکھاہے‘ وہ جس طرف بھی آپ کو لیے پھرتی۔ (بخاری و مسلم) اور بخاری نے یہ اضافہ بھی نقل کیا ہے کہ آپ اپنے سر مبارک سے اشارے (کے ساتھ نماز ادا) فرماتے‘ اور فرض نماز میں ایسا نہیں کرتے تھے۔اور ابوداود میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب آپ سفر کرتے اور نفلی نماز پڑھنا چاہتے تو (ایک مرتبہ) اپنی اونٹنی کا رخ قبلے کی طرف موڑ دیتے اور تکبیر کہتے ‘ اس کے بعد پھر سواری کا رخ جس جانب بھی ہو جاتا‘ نماز پڑھتے رہتے۔ (اس حدیث کی سند حسن ہے۔)
تشریح :
حدیث ہذا سے معلوم ہوا کہ سفر کی حالت میں نفل نماز سواری پر ادا کی جا سکتی ہے‘ فرض نہیں‘ نیز ایک دفعہ سواری کا رخ یا اپنا رخ قبلہ کی طرف کر کے شروع کر لے‘ پھر اگر سواری کا رخ کسی دوسری جانب ہو جائے تب بھی نماز درست ہے۔ مگر یہ اس وقت ہے جب سواری مسافر کے اپنے تصرف میں ہو۔ ہمارے دور کی سواریاں‘ مثلاً: ریل گاڑی اور ہوائی جہاز وغیرہ چونکہ مسافروں کے اپنے تصرف میں نہیں ہوتے‘ اس لیے ایسے سفروں میں جمع تقدیم (ظہر اور عصر کو اکٹھا ظہر کے وقت میں اور مغرب و عشاء کو اکٹھا مغرب کے وقت میں پڑھنا) یا جمع تاخیر (ظہر اور عصر کو اکٹھا عصر کے وقت میں اور مغرب و عشاء کو اکٹھا عشاء کے وقت میں پڑھنا) کی سہولت سے فائدہ اٹھایا جائے۔ اگر سفر اتنا لمبا ہو کہ دو نمازوں (ظہر و عصر یا مغرب و عشاء) کا وقت دوران سفر ہی میں گزر جائے گا تو پھر سواری پر فرض بھی ادا کر سکتے ہیں‘ جیسے کشتی یا بحری جہاز میں اگر ساحل قریب نہ ہو تو بالاتفاق ان میں فرض نماز جائز ہے۔
تخریج :
أخرجه البخاري، تقصير الصلاة، باب صلاة التطوع على الدواب وحيثما توجهت، حديث:1093-1097، ومسلم، صلاة المسافرين، باب جواز صلاة النافلة على الدابة فى السفر حيث توجهت، حديث:701، وحديث أنس أخرجه أبوداود، الصلاة، حديث:1225، وإسناده حسن كما قال الحافظ رحمه الله .
حدیث ہذا سے معلوم ہوا کہ سفر کی حالت میں نفل نماز سواری پر ادا کی جا سکتی ہے‘ فرض نہیں‘ نیز ایک دفعہ سواری کا رخ یا اپنا رخ قبلہ کی طرف کر کے شروع کر لے‘ پھر اگر سواری کا رخ کسی دوسری جانب ہو جائے تب بھی نماز درست ہے۔ مگر یہ اس وقت ہے جب سواری مسافر کے اپنے تصرف میں ہو۔ ہمارے دور کی سواریاں‘ مثلاً: ریل گاڑی اور ہوائی جہاز وغیرہ چونکہ مسافروں کے اپنے تصرف میں نہیں ہوتے‘ اس لیے ایسے سفروں میں جمع تقدیم (ظہر اور عصر کو اکٹھا ظہر کے وقت میں اور مغرب و عشاء کو اکٹھا مغرب کے وقت میں پڑھنا) یا جمع تاخیر (ظہر اور عصر کو اکٹھا عصر کے وقت میں اور مغرب و عشاء کو اکٹھا عشاء کے وقت میں پڑھنا) کی سہولت سے فائدہ اٹھایا جائے۔ اگر سفر اتنا لمبا ہو کہ دو نمازوں (ظہر و عصر یا مغرب و عشاء) کا وقت دوران سفر ہی میں گزر جائے گا تو پھر سواری پر فرض بھی ادا کر سکتے ہیں‘ جیسے کشتی یا بحری جہاز میں اگر ساحل قریب نہ ہو تو بالاتفاق ان میں فرض نماز جائز ہے۔