بلوغ المرام - حدیث 164

كِتَابُ الصَّلَاةِ بَابُ شُرُوطِ الصَّلَاةِ ضعيف وَعَنْ عَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ - رضي الله عنه - قَالَ: كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ - صلى الله عليه وسلم - فِي لَيْلَةٍ مَظْلَمَةٍ، فَأَشْكَلَتْ عَلَيْنَا الْقِبْلَةُ، فَصَلَّيْنَا. فَلَمَّا طَلَعَتِ الشَّمْسُ إِذَا نَحْنُ صَلَّيْنَا إِلَى غَيْرِ الْقِبْلَةِ، فَنَزَلَتْ: {فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ} [البقرة: 115]. أَخْرَجَهُ التِّرْمِذِيُّ وَضَعَّفَهُ.

ترجمہ - حدیث 164

کتاب: نماز سے متعلق احکام و مسائل باب: شرائط نماز کا بیان حضرت عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک اندھیری رات میں ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے تو قبلے کا رخ شناخت کرنا ہم پر دشوار ہوگیا۔ ہم نے (اندازاً قبلے کا رخ متعین کر کے) نماز پڑھ لی۔ جب آفتاب طلوع ہوا تو معلوم ہوا کہ ہم نے غیرقبلے کی جانب نماز پڑھی تھی‘ چنانچہ (اس موقع پر) یہ آیت نازل ہوئی: ﴿ فَاَیْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْہُ اللّٰہِ ﴾ ’’پس جدھر تم رخ کرو گے اسی طرف اللہ کا چہرہ ہے۔‘‘ (اسے ترمذی نے روایت کیا ہے اور ضعیف قرار دیا ہے۔)
تشریح : 1. مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے حسن قرار دیا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (إرواء الغلیل‘ رقم:۲۹۱) بنابریں اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عدم واقفیت‘ ابر آلودگی یا دیگر کسی سبب کے باعث سمت قبلہ صحیح طور پر معلوم نہ ہو سکے اور آدمی اپنی دانست کے مطابق غور و فکر اور سوچ بچار کے بعد فیصلہ کر کے نماز پڑھ لے تو اس اندازے میں اگر غلطی ہو جائے تو معاف ہے کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿لاَ یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلاَّ وُسْعَھَا﴾ (البقرۃ۲:۲۸۶) ’’اللہ تعالیٰ کسی کو اس کی طاقت سے بڑھ کر کام کرنے کا مکلف نہیں ٹھہراتا۔‘‘ 2. امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک وقت نکلنے سے پہلے اور بعد میں ہر صورت میں اعادہ واجب ہے کیونکہ قبلہ رخ ہونا فرض ہے‘ نیز وہ اس حدیث کو ضعیف کہتے ہیں۔ 3.امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو اس بنا پر ضعیف کہا ہے کہ اس روایت کی سند میں اشعث بن سعید راوی ضعیف قرار دیا گیا ہے‘ مگر امام ترمذی رحمہ اللہ اس مسئلے کی بابت (کتاب الصلاۃ‘ باب ماجاء في الرجل یصلي…‘حدیث:۳۴۵ میں) لکھتے ہیں: ’’اکثر علماء نے یہی موقف اختیار کیا ہے کہ اگر کوئی شخص بادل کی وجہ سے قبلے کے سوا دوسری طرف منہ کر کے نماز پڑھ لے‘ پھر نماز کے بعد اسے پتہ چلے کہ اس نے قبلہ رخ نماز ادا نہیں کی تو اس کی وہ نماز درست ہے۔ سفیان ثوری‘ ابن مبارک‘ احمد بن حنبل اور اسحاق بن راہویہ رحمہم اللہ کا یہی موقف ہے۔‘‘ 4. اگر نماز کے دوران میں پتہ چل جائے تو نمازی کو چاہیے کہ دوران نماز ہی میں قبلہ رخ ہو جائے جیسا کہ اہل قبا نے تحویل قبلہ کی خبر سن کر نماز ہی میں اپنا رخ تبدیل کر لیا تھا‘ اور باقی نماز صحیح سمت ہو کر مکمل کر لے۔ راوئ حدیث: [حضرت عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ ] قبیلۂ عنز بن وائل میں سے ہیں۔ بکر اور تغلب جو وائل کے بیٹے تھے‘ عنز ان کا بھائی تھا۔ قدیم الاسلام صحابی ہیں۔ ہجرت حبشہ اور ہجرت مدینہ دونوں سے شرف یاب ہوئے۔ غزوئہ بدر اور دیگر تمام معرکوں میں داد شجاعت دیتے رہے۔ ان کے سن وفات میں اختلاف ہے۔ ۳۲‘ ۳۳ یا ۳۵ ہجری میں سے کسی سن میں وفات پائی۔
تخریج : أخرجه الترمذي، تفسير القرآن، باب ومن سورة البقرة، حديث:2957، وابن ماجه، الصلاة، حديث:1020* عاصم بن عبيدالله ضعيف(تقريب)، وللحديث شاهد ضعيف عند البيهقي:2 /11. 1. مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے حسن قرار دیا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (إرواء الغلیل‘ رقم:۲۹۱) بنابریں اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عدم واقفیت‘ ابر آلودگی یا دیگر کسی سبب کے باعث سمت قبلہ صحیح طور پر معلوم نہ ہو سکے اور آدمی اپنی دانست کے مطابق غور و فکر اور سوچ بچار کے بعد فیصلہ کر کے نماز پڑھ لے تو اس اندازے میں اگر غلطی ہو جائے تو معاف ہے کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿لاَ یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلاَّ وُسْعَھَا﴾ (البقرۃ۲:۲۸۶) ’’اللہ تعالیٰ کسی کو اس کی طاقت سے بڑھ کر کام کرنے کا مکلف نہیں ٹھہراتا۔‘‘ 2. امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک وقت نکلنے سے پہلے اور بعد میں ہر صورت میں اعادہ واجب ہے کیونکہ قبلہ رخ ہونا فرض ہے‘ نیز وہ اس حدیث کو ضعیف کہتے ہیں۔ 3.امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو اس بنا پر ضعیف کہا ہے کہ اس روایت کی سند میں اشعث بن سعید راوی ضعیف قرار دیا گیا ہے‘ مگر امام ترمذی رحمہ اللہ اس مسئلے کی بابت (کتاب الصلاۃ‘ باب ماجاء في الرجل یصلي…‘حدیث:۳۴۵ میں) لکھتے ہیں: ’’اکثر علماء نے یہی موقف اختیار کیا ہے کہ اگر کوئی شخص بادل کی وجہ سے قبلے کے سوا دوسری طرف منہ کر کے نماز پڑھ لے‘ پھر نماز کے بعد اسے پتہ چلے کہ اس نے قبلہ رخ نماز ادا نہیں کی تو اس کی وہ نماز درست ہے۔ سفیان ثوری‘ ابن مبارک‘ احمد بن حنبل اور اسحاق بن راہویہ رحمہم اللہ کا یہی موقف ہے۔‘‘ 4. اگر نماز کے دوران میں پتہ چل جائے تو نمازی کو چاہیے کہ دوران نماز ہی میں قبلہ رخ ہو جائے جیسا کہ اہل قبا نے تحویل قبلہ کی خبر سن کر نماز ہی میں اپنا رخ تبدیل کر لیا تھا‘ اور باقی نماز صحیح سمت ہو کر مکمل کر لے۔ راوئ حدیث: [حضرت عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ ] قبیلۂ عنز بن وائل میں سے ہیں۔ بکر اور تغلب جو وائل کے بیٹے تھے‘ عنز ان کا بھائی تھا۔ قدیم الاسلام صحابی ہیں۔ ہجرت حبشہ اور ہجرت مدینہ دونوں سے شرف یاب ہوئے۔ غزوئہ بدر اور دیگر تمام معرکوں میں داد شجاعت دیتے رہے۔ ان کے سن وفات میں اختلاف ہے۔ ۳۲‘ ۳۳ یا ۳۵ ہجری میں سے کسی سن میں وفات پائی۔