كِتَابُ الصَّلَاةِ بَابُ شُرُوطِ الصَّلَاةِ ضعيف وَعَنْ أُمِّ سَلَمَةَ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: أَنَّهَا سَأَلَتْ النَّبِيِّ - صلى الله عليه وسلم: ((أَتُصَلِّي الْمَرْأَةُ فِي دِرْعٍ وَخِمَارٍ، بِغَيْرِ إِزَارٍ? قَالَ: ((إِذَا كَانَ الدِّرْعُ سَابِغًا يُغَطِّي ظُهُورَ قَدَمَيْهَا)). أَخْرَجَهُ أَبُو دَاوُدَ وَصَحَّحَ الْأَئِمَّةُ وَقْفَهُ.
کتاب: نماز سے متعلق احکام و مسائل
باب: شرائط نماز کا بیان
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا: کیا کوئی عورت تہبند کے بغیر محض قمیص اور اوڑھنی میں نماز پڑھ سکتی ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’جب قمیص اتنی لمبی اور فراخ ہو کہ قدموں کے اوپر والے حصوں تک پہنچ جائے تو جائز ہے۔‘‘ (اسے ابوداود نے روایت کیا ہے اور ائمہ نے اس کے موقوف ہونے کو صحیح قرار دیا ہے۔)
تشریح :
1. مذکورہ روایت ضعیف ہے‘ تاہم دیگر صحیح روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ عورت نماز میں اپنا جسم ڈھانپے کیونکہ اسے سر سمیت سارا جسم ڈھانپنے کا حکم ہے جیسا کہ حدیث نمبر ۱۶۱ میں گزر چکا ہے۔ 2.دوسری بات جو اس حدیث میں بیان ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ عورت اپنے پاؤں کی پشت کو ڈھانپے۔ اس کی بابت علمائے محققین لکھتے ہیں کہ اگر اس روایت کو صحیح بھی تسلیم کر لیا جائے تو پھر بھی نماز کی حالت میں عورت کے لیے پیروں کا ڈھانپنا ضروری نہیں‘ اس کو زیادہ سے زیادہ پردے کے عمومی حکم کے اعتبار سے بہتر کہا جا سکتا ہے۔ بعض علماء پاؤں کی پشت کے ڈھانپنے کے لیے ترمذی کی حدیث (۱۷۳۱) سے بھی استدلال کرتے ہیں جس میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے جواب میں فرمایا کہ اگر عورت کے پاؤں مردوں کے لباس سے ایک بالشت زیادہ لٹکانے پر ننگے رہتے ہوں تو وہ ایک ہاتھ زیادہ لٹکا لیا کریں۔ اس سے وہ یہ ثابت کرتے ہیں کہ نماز میں عورت کو پاؤں کی پشتوں سمیت اپنا پورا جسم ڈھانپ کر رکھنا چاہیے لیکن حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی اس حدیث کا تعلق پردے کے عمومی حکم سے ہے‘ نمازی عورت کے لیے بھی اسے ضروری قرار دینا محل نظر ہے۔ اس طرح تو پھر نماز پڑھتے وقت عورت کے لیے چہرے کو ڈھانپنا بھی ضروری قرار دینا پڑے گا کیونکہ پردے کے حکم میں عورت کا چہرہ بھی شامل ہے۔ اگر عورت کے لیے نماز کی حالت میں چہرہ ڈھانپنا ضروری نہیں ہے تو پھر حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی حدیث سے نماز کی حالت میں پیروں کی پشت کے ڈھانپنے کو بھی ضروری قرار دینا غلط ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (فتاویٰ شیخ الاسلام ابن تیمیہ: ۱۱ /۴۲۶- ۴۳۰، طبع جدید‘ ۱۸۸۹. الریاض)
تخریج :
أخرجه أبوداود، الصلاة، باب في كم تصلي المرأة، حديث:639(موقوفًا)، و:640(مرفوعًا)وسنده ضعيف أيضًا.
1. مذکورہ روایت ضعیف ہے‘ تاہم دیگر صحیح روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ عورت نماز میں اپنا جسم ڈھانپے کیونکہ اسے سر سمیت سارا جسم ڈھانپنے کا حکم ہے جیسا کہ حدیث نمبر ۱۶۱ میں گزر چکا ہے۔ 2.دوسری بات جو اس حدیث میں بیان ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ عورت اپنے پاؤں کی پشت کو ڈھانپے۔ اس کی بابت علمائے محققین لکھتے ہیں کہ اگر اس روایت کو صحیح بھی تسلیم کر لیا جائے تو پھر بھی نماز کی حالت میں عورت کے لیے پیروں کا ڈھانپنا ضروری نہیں‘ اس کو زیادہ سے زیادہ پردے کے عمومی حکم کے اعتبار سے بہتر کہا جا سکتا ہے۔ بعض علماء پاؤں کی پشت کے ڈھانپنے کے لیے ترمذی کی حدیث (۱۷۳۱) سے بھی استدلال کرتے ہیں جس میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے جواب میں فرمایا کہ اگر عورت کے پاؤں مردوں کے لباس سے ایک بالشت زیادہ لٹکانے پر ننگے رہتے ہوں تو وہ ایک ہاتھ زیادہ لٹکا لیا کریں۔ اس سے وہ یہ ثابت کرتے ہیں کہ نماز میں عورت کو پاؤں کی پشتوں سمیت اپنا پورا جسم ڈھانپ کر رکھنا چاہیے لیکن حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی اس حدیث کا تعلق پردے کے عمومی حکم سے ہے‘ نمازی عورت کے لیے بھی اسے ضروری قرار دینا محل نظر ہے۔ اس طرح تو پھر نماز پڑھتے وقت عورت کے لیے چہرے کو ڈھانپنا بھی ضروری قرار دینا پڑے گا کیونکہ پردے کے حکم میں عورت کا چہرہ بھی شامل ہے۔ اگر عورت کے لیے نماز کی حالت میں چہرہ ڈھانپنا ضروری نہیں ہے تو پھر حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی حدیث سے نماز کی حالت میں پیروں کی پشت کے ڈھانپنے کو بھی ضروری قرار دینا غلط ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (فتاویٰ شیخ الاسلام ابن تیمیہ: ۱۱ /۴۲۶- ۴۳۰، طبع جدید‘ ۱۸۸۹. الریاض)