کِتَابُ الطَّھَارَۃِ بَابُ الْآنِيَةِ صحيح وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم: ((إِذَا دُبِغَ الْإِهَابُ فَقَدْ طَهُرَ)). أَخْرَجَهُ مُسْلِمٌ. وَعِنْدَ الْأَرْبَعَةِ: ((أَيُّمَا إِهَابٍ دُبِغَ)).
کتاب: طہارت سے متعلق احکام ومسائل
باب: برتنوں کے احکام ومسائل
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادگرامی ہے:’’ جب کچے چمڑے کو (ادویات وغیرہ سے) رنگ دیا جائے تو وہ پاک ہو جاتا ہے۔‘‘ (اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔) اور سنن اربعہ میں یہ الفاظ ہیں: ’’جونسا چمڑا بھی رنگا جائے۔‘‘
تشریح :
1. یہ حدیث ہر قسم اور ہر نوع کے حیوانات کے چمڑوں کو شامل ہے‘ البتہ خنزیر‘ یعنی سور کا چمڑا بالاتفاق اس سے مستثنیٰ ہے اور اکثریت کے نزدیک کتے کا چمڑا بھی مستثنیٰ ہے اور محققین علماء کے نزدیک ان تمام جانوروں کا چمڑا بھی مستثنیٰ ہے جو غیر مأکول اللحم ہیں‘ یعنی جن کا گوشت کھایا نہیں جاتا۔ 2.حدیث مذکور سے معلوم ہوتاہے کہ دباغت (رنگائی) کے بعد ہر قسم کا چمڑا پاک ہو جاتا ہے‘ وہ چمڑا خواہ حلال جانور کا ہو یا حرام کا‘ جانور خواہ شرعی طریقے سے ذبح کیا گیا ہو یا خود اپنی طبعی موت مرا ہو۔ اس اصول عمومی کے باوجود بعض جانور ایسے ہیں جن کے چمڑے کو دباغت کے باوجود پاک قرار نہیں دیا گیا‘ مثلاً: خنزیر کا چمڑا‘ اسے نجس عین ہونے کی بنا پر پاک قرار نہیں دیا گیا اور انسان کا چمڑا‘ اسے بھی بوجہ اس کی کرامت و بزرگی اور شرف کے حرام ٹھہرایا گیا ہے تاکہ بے قدری سے اسے محفوظ رکھا جائے۔ 3. بعض لوگوں کی رائے ہے کہ خنزیر اور کتے پر اگر تکبیر پڑھ کر انھیں ذبح کیا جائے تو اس صورت میں وہ بھی پاک ہو جاتا ہے جبکہ یہ رائے صحیح نہیں ہے‘ اسی طرح احناف کا کتے کے چمڑے کو دباغت کے بعد پاک قرار دینا بھی صائب و صحیح رائے پر مبنی نہیں ہے۔ 4.یہ ذہن نشین رہے کہ جن جانوروں کے چمڑے دباغت کے بعد پاک ہو جاتے ہیں ان کے سینگ‘ بال‘ دانت اور ہڈیاں وغیرہ کام میں لائی جاسکتی ہیں‘ نیز ان کی تجارت بھی کی جا سکتی ہے۔
تخریج :
أخرجه مسلم، الحيض، باب طهارة جلود الميتة بالدباغ، حديث:366، وأبوداود، اللباس، حديث:4123، والترمذي، اللباس، حديث:1728، وابن ماجه، اللباس، حديث:3609، والنسائي، الفرع والعتيرة، حديث:4246.
1. یہ حدیث ہر قسم اور ہر نوع کے حیوانات کے چمڑوں کو شامل ہے‘ البتہ خنزیر‘ یعنی سور کا چمڑا بالاتفاق اس سے مستثنیٰ ہے اور اکثریت کے نزدیک کتے کا چمڑا بھی مستثنیٰ ہے اور محققین علماء کے نزدیک ان تمام جانوروں کا چمڑا بھی مستثنیٰ ہے جو غیر مأکول اللحم ہیں‘ یعنی جن کا گوشت کھایا نہیں جاتا۔ 2.حدیث مذکور سے معلوم ہوتاہے کہ دباغت (رنگائی) کے بعد ہر قسم کا چمڑا پاک ہو جاتا ہے‘ وہ چمڑا خواہ حلال جانور کا ہو یا حرام کا‘ جانور خواہ شرعی طریقے سے ذبح کیا گیا ہو یا خود اپنی طبعی موت مرا ہو۔ اس اصول عمومی کے باوجود بعض جانور ایسے ہیں جن کے چمڑے کو دباغت کے باوجود پاک قرار نہیں دیا گیا‘ مثلاً: خنزیر کا چمڑا‘ اسے نجس عین ہونے کی بنا پر پاک قرار نہیں دیا گیا اور انسان کا چمڑا‘ اسے بھی بوجہ اس کی کرامت و بزرگی اور شرف کے حرام ٹھہرایا گیا ہے تاکہ بے قدری سے اسے محفوظ رکھا جائے۔ 3. بعض لوگوں کی رائے ہے کہ خنزیر اور کتے پر اگر تکبیر پڑھ کر انھیں ذبح کیا جائے تو اس صورت میں وہ بھی پاک ہو جاتا ہے جبکہ یہ رائے صحیح نہیں ہے‘ اسی طرح احناف کا کتے کے چمڑے کو دباغت کے بعد پاک قرار دینا بھی صائب و صحیح رائے پر مبنی نہیں ہے۔ 4.یہ ذہن نشین رہے کہ جن جانوروں کے چمڑے دباغت کے بعد پاک ہو جاتے ہیں ان کے سینگ‘ بال‘ دانت اور ہڈیاں وغیرہ کام میں لائی جاسکتی ہیں‘ نیز ان کی تجارت بھی کی جا سکتی ہے۔