كِتَابُ الصَّلَاةِ بَابُ الْأَذَانِ صحيح وَعَنْ أَبِي قَتَادَةٌ فِي الْحَدِيثِ الطَّوِيلِ، - فِي نَوْمهُمْ عَنِ الصَّلَاةِ - ثُمَّ أَذَّنَ بِلَالٌ، فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - كَمَا كَانَ يَصْنَعُ كُلَّ يَوْمٍ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ. وَلَهُ عَنْ جَابِرٍ; - أَنَّ النَّبِيَّ - صلى الله عليه وسلم - أَتَى الْمُزْدَلِفَةَ فَصَلَّى بِهَا الْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ، بِأَذَانٍ وَاحِدٍ وَإِقَامَتَيْنِ. وَلَهُ عَنِ ابْنِ عُمَرَ: جَمَعَ بَيْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ بِإِقَامَةٍ وَاحِدَةٍ. زَادَ أَبُو دَاوُدَ: لِكُلِّ صَلَاةٍ. وَفِي رِوَايَةِ لَهُ: وَلَمْ يُنَادِ فِي وَاحِدَةٍ مِنْهُمَا.
کتاب: نماز سے متعلق احکام و مسائل
باب: اذان کے احکام و مسائل
حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک لمبی حدیث میں ہے‘ جس میں (دوران سفر میں غلبۂ نیند اور تھکاوٹ کی وجہ سے) نماز کے وقت صحابہ کے سوئے رہ جانے کا ذکر ہے۔ (جب نیند سے بیداری ہوئی تو) حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے اذان دی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح نماز پڑھی جس طرح روزانہ آپ کا معمول تھا۔ (اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔) اور مسلم میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مزدلفہ میں پہنچے تو وہاں آپ نے مغرب اور عشاء کی نمازیں ایک اذان اور دو اقامتوں سے پڑھیں۔ اورمسلم ہی میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مغرب اور عشاء دونوں نمازیں جمع کر کے ایک ہی اقامت کے ساتھ ادا فرمائیں۔ اور ابوداود نے اتنا اضافہ نقل کیا ہے کہ ہر نماز کے لیے تکبیر کہی گئی۔ اور اسی کی ایک روایت میں منقول ہے کہ ان دونوں نمازوں میں سے کسی کے لیے بھی اذان نہیں دی گئی۔
تشریح :
1. اس حدیث سے یہ مسئلہ ثابت ہوا کہ فوت شدہ نماز اگر جماعت سے پڑھی جائے تو اس کے لیے اذان دینا مشروع ہے۔ 2. ابن عمر رضی اللہ عنہما کی دوسری حدیث اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی پہلی حدیث باہم متعارض ہیں کیونکہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث مزدلفہ کے قیام کے دوران میں مغرب و عشاء کو جمع کر کے پڑھنے کی صورت میں اذان دینے کی نفی کرتی ہے جبکہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک اذان اور دو اقامتیں کہی گئیں۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث زیادہ قوی ہے۔ علاوہ ازیں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث میں اذان کی نفی ہے اور حدیث جابر میں اس کا اثبات ہے۔ اور مثبت روایت منفی پر مقدم ہوتی ہے۔
تخریج :
أخرجه مسلم، المساجد، باب قضاء الصلاة الفائتة واستحباب تعجيل قضائها، حديث:681 وحديث جابرأخرجه مسلم، الحج، حديث:1218 وحديث ابن عمر أخرجه مسلم، الحج، حديث: 1288، وأبوداود، المناسك، حديث:1927-1930.
1. اس حدیث سے یہ مسئلہ ثابت ہوا کہ فوت شدہ نماز اگر جماعت سے پڑھی جائے تو اس کے لیے اذان دینا مشروع ہے۔ 2. ابن عمر رضی اللہ عنہما کی دوسری حدیث اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی پہلی حدیث باہم متعارض ہیں کیونکہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث مزدلفہ کے قیام کے دوران میں مغرب و عشاء کو جمع کر کے پڑھنے کی صورت میں اذان دینے کی نفی کرتی ہے جبکہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک اذان اور دو اقامتیں کہی گئیں۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث زیادہ قوی ہے۔ علاوہ ازیں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث میں اذان کی نفی ہے اور حدیث جابر میں اس کا اثبات ہے۔ اور مثبت روایت منفی پر مقدم ہوتی ہے۔