كِتَابُ الصَّلَاةِ بَابُ الْأَذَانِ صحيح وَعَنْ أَبِي جُحَيْفَةَ - رضي الله عنه - قَالَ: رَأَيْتُ بِلَالًا يُؤَذِّنُ وَأَتَتَبَّعُ فَاهُ، هَاهُنَا وَهَاهُنَا، وَإِصْبَعَاهُ فِي أُذُنَيْهِ. رَوَاهُ أَحْمَدُ، وَالتِّرْمِذِيُّ وَصَحَّحَهُ. وَلِابْنِ مَاجَهْ: وَجَعَلَ إِصْبَعَيْهِ فِي أُذُنَيْهِ. وَلِأَبِي دَاوُدَ: لَوَى عُنُقَهُ، لَمَّا بَلَغَ ((حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ)) يَمِينًا وَشِمَالًا وَلَمْ يَسْتَدِرْ. وَأَصْلِهِ فِي الصَّحِيحَيْنِ.
کتاب: نماز سے متعلق احکام و مسائل
باب: اذان کے احکام و مسائل
حضرت ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو اذان دیتے دیکھا اور میں نے ان کے چہرے کو بغور دیکھا کہ وہ اپنا چہرہ ادھر ادھر (دائیں بائیں جانب) پھیرتے تھے۔ اور ان کی دونوں انگلیاں (انگشت ہائے شہادت) ان کے کانوں میں تھیں۔ (اسے احمد اور ترمذی نے روایت کیا ہے اور ترمذی نے صحیح قرار دیا ہے۔) اور ابن ماجہ کی روایت میں ہے کہ انھوں نے اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں داخل کر لیں۔ اور ابوداود میں ہے کہ جب وہ حَيَّ عَلَی الصَّلَاۃِ پر پہنچے تو اپنی گردن دائیں بائیں جانب موڑی اور خود نہیں گھومے۔ اور اس کی اصل صحیحین میں ہے۔
تشریح :
1. اذان قبلہ رخ کھڑے ہو کر کہنا مسنون ہے۔ اسی طرح حَيَّ عَلَی الصَّلَاۃِ اور حَيَّ عَلَی الْفَلَاحِکہتے وقت دائیں بائیں چہرے کو پھیرنا بھی مسنون ہے۔ 2.اذان کہتے ہوئے کانوں میں انگلیاں داخل کرنے کے تین فائدے ہیں: کانوں میں انگلیاں ڈالنے سے آواز بلند ہو جاتی ہے۔ علاوہ ازیں کوئی بہرہ آدمی مؤذن کو ایسی حالت میں دیکھ کر معلوم کر سکتا ہے کہ نماز کے لیے اذان دی جا رہی ہے‘ نیز دوسروں کی آواز کے اختلاط سے مؤذن محفوظ رہتا ہے۔ راوئ حدیث: [حضرت أبوجحیفہ رضی اللہ عنہ ] أبوجحیفہ کنیت ہے۔ وہب بن عبداللہ سوائی نام ہے۔ جحیفہ میں ’’جیم‘‘ پر ضمہ ہے۔ یہ تصغیر ہے۔ ’’جیم‘‘ ’’حا‘‘ سے پہلے ہے۔ سوائی میں ’’سین‘‘ پر ضمہ ہے۔ سوائی عامری مشہور ہیں۔ صغار صحابہ میں شمار کیے گئے ہیں۔ کوفے میں سکونت اختیار کی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان کو بیت المال پر عامل مقرر کیا۔ ان کے ہمراہ تمام غزوات میں شریک ہوئے۔ کوفے میں ۷۴ ہجری میں وفات پائی۔
تخریج :
أخرجه الترمذي، أبواب الصلاة، باب ماجاء في إدخال الإصبع في الأذن عند الأذان، حديث:197، وأحمد:4 /308، 309، وأصله في الصحيحين، البخاري، الأذان، حديث:634، ومسلم، الصلاة، حديث:503، وابن ماجه، الصلاة، حديث:711، وأبوداود، الصلاة، حديث:520.
1. اذان قبلہ رخ کھڑے ہو کر کہنا مسنون ہے۔ اسی طرح حَيَّ عَلَی الصَّلَاۃِ اور حَيَّ عَلَی الْفَلَاحِکہتے وقت دائیں بائیں چہرے کو پھیرنا بھی مسنون ہے۔ 2.اذان کہتے ہوئے کانوں میں انگلیاں داخل کرنے کے تین فائدے ہیں: کانوں میں انگلیاں ڈالنے سے آواز بلند ہو جاتی ہے۔ علاوہ ازیں کوئی بہرہ آدمی مؤذن کو ایسی حالت میں دیکھ کر معلوم کر سکتا ہے کہ نماز کے لیے اذان دی جا رہی ہے‘ نیز دوسروں کی آواز کے اختلاط سے مؤذن محفوظ رہتا ہے۔ راوئ حدیث: [حضرت أبوجحیفہ رضی اللہ عنہ ] أبوجحیفہ کنیت ہے۔ وہب بن عبداللہ سوائی نام ہے۔ جحیفہ میں ’’جیم‘‘ پر ضمہ ہے۔ یہ تصغیر ہے۔ ’’جیم‘‘ ’’حا‘‘ سے پہلے ہے۔ سوائی میں ’’سین‘‘ پر ضمہ ہے۔ سوائی عامری مشہور ہیں۔ صغار صحابہ میں شمار کیے گئے ہیں۔ کوفے میں سکونت اختیار کی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان کو بیت المال پر عامل مقرر کیا۔ ان کے ہمراہ تمام غزوات میں شریک ہوئے۔ کوفے میں ۷۴ ہجری میں وفات پائی۔