بلوغ المرام - حدیث 144

كِتَابُ الصَّلَاةِ بَابُ الْأَذَانِ حسن عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدِ بْنِ عَبْدِ رَبِّهِ - رضي الله عنه - قَالَ: طَافَ بِي - وَأَنَا [ص:54] نَائِمٌ - رَجُلٌ فَقَالَ: تَقُولُ: اللَّهُ أَكْبَرَ اللَّهِ أَكْبَرُ، فَذَكَرَ الْآذَانَ - بِتَرْبِيع التَّكْبِيرِ بِغَيْرِ تَرْجِيعٍ، وَالْإِقَامَةَ فُرَادَى، إِلَّا قَدْ قَامَتِ الصَّلَاةُ. قَالَ: فَلَمَّا أَصْبَحْتُ أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - فَقَالَ: ((إِنَّهَا لَرُؤْيَا حَقٍّ ... )). الْحَدِيثَ. أَخْرَجَهُ أَحْمَدُ، وَأَبُو دَاوُدَ، وَصَحَّحَهُ التِّرْمِذِيُّ، وَابْنُ خُزَيْمَةَ. وَزَادَ أَحْمَدُ فِي آخِرِهِ قِصَّةَ قَوْلِ بِلَالٍ فِي آذَانِ الْفَجْرِ: ((الصَّلَاةُ خَيْرٌ مِنَ النَّوْمِ)). وَلِابْنِ خُزَيْمَةَ: عَنْ أَنَسٍ قَالَ: مِنَ السُّنَّةِ إِذَا قَالَ الْمُؤَذِّنُ فِي الْفَجْرِ: حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ، قَالَ: الصَّلَاةُ خَيْرٌ مِنَ النَّوْمِ.

ترجمہ - حدیث 144

کتاب: نماز سے متعلق احکام و مسائل باب: اذان کے احکام و مسائل حضرت عبداللہ بن زید بن عبدربہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ خواب میں مجھے ایک آدمی ملا جس نے مجھے کہا کہ کہو: [اَللّٰہُ أَکْبَـرُ اللّٰہُ أَکْبَـرُ]، پھر اس نے ساری اذان کہی‘ چار مرتبہ [اَللّٰہُ أَکْبَـرُ] کہا۔ بغیر ترجیع کے اذان کہی اور اقامت (تکبیر) ایک ایک مرتبہ کہی‘ مگر [قَدْ قَامَتِ الصَّلَاۃُ] کو دو مرتبہ کہا۔ صبح جب میں بیدار ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا (اور اپنا خواب آپ کو سنایا۔) آپ نے فرمایا: ’’یقینا یہ خواب سچا ہے۔‘‘ یہ لمبی حدیث ہے۔ (اسے احمد اور ابوداود نے روایت کیا ہے اور ترمذی اور ابن خزیمہ نے صحیح قرار دیا ہے۔)اور احمد نے اس روایت کے آخر میں حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی فجر کی اذان میں [اَلصَّلَاۃُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوْمِ] کا قصہ بھی مزید بیان کیا ہے ۔اور ابن خزیمہ میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے فرمایا: جب مؤذن صبح کی اذان میں [حَيَّ عَلَی الْفَلَاحِ] کہے تو وہ کہے: [اَلصَّلَاۃُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوْمِ]۔ یہ (کہنا) سنت ہے۔
تشریح : 1. اس حدیث کا پس منظر یہ ہے کہ مدینہ طیبہ میں ہجرت کے پہلے سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے مشورہ کیا کہ نماز باجماعت کے لیے بلانے کا کیا طریقہ ہونا چاہیے۔ بعض نے کہا: نماز کے لیے ناقوس (گھڑیال) بجایا جائے۔ بعض نے بلندی پر آگ روشن کرنے کا مشورہ دیا۔ بعض نے بـوق (بگل) سے کام لینے کا مشورہ دیا لیکن یہ سب مشورے رد کر دیے گئے کیونکہ گھڑیال بجانا عیسائیوں کا، بگل بجانا یہودیوں کا اور آگ جلانا مجوسیوں کا شعار ہے۔ اسی دوران میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مشورہ دیا کہ نمازوں کی طرف بلانے کے لیے اذان دی جائے‘ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو بآواز بلند اَلصَّلَاۃُ جَامِعَۃٌ کہنے کا حکم دیا۔ اسی اثنا میں عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ جو مذکورہ بالاحدیث کے راوی ہیں‘ نے خواب میں دیکھا کہ ایک آدمی ناقوس اٹھائے ہوئے ہے۔ حضرت عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ نے اس سے دریافت کیا: اللہ کے بندے! کیا تم ناقوس فروخت کرتے ہو؟ اس نے پوچھا کہ تم اس سے کیا کرو گے؟ حضرت عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم اس کے ذریعے سے (لوگوں کو) نماز باجماعت کے لیے بلائیں گے۔ اس شخص نے کہا: میں تمھیں اس سے بہتر طریقے سے آگاہ نہ کر دوں؟ حضرت عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ نے کہا: ہاں‘ (ضرور بتائیں ۔) تو اس نے (موجودہ) اذان اور اقامت کے الفاظ انھیں سکھائے۔ یہی خواب حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے نبی ٔاکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیان کیا جسے آپ نے سچا اور صادق قرار دیا۔ 2. اذان میں ترجیع مسنون ہے یا نہیں؟ اس بارے میں ائمہ کی آراء مختلف ہیں: ایک رائے یہ ہے کہ ترجیع ثابت ہے۔ اہلحدیث حضرات کی رائے یہی ہے۔ اور ایک رائے یہ ہے کہ ترجیع جس صحابی سے ثابت کی جاتی ہے اس صحابی کو تعلیم دینا مقصود تھا‘ اس لیے کہ حضرت ابومحذورہ رضی اللہ عنہ جنھیں آپ نے یہ تعلیم دی‘ نے پہلی مرتبہ اذان میں شہادتین أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ اور أَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُولُ اللّٰہِ کو دھیمی اورپست آواز میں ادا کیا تھا‘ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دوبارہ یہ کلمات کہنے کا حکم دیا۔ لیکن یہ تاویل درست نہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے محض سکھلانے کے لیے شہادتین کے الفاظ دوبارہ نہیں کہلوائے بلکہ آپ نے انھیں اذان دینے کا طریقہ ہی یہی سکھلایا۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت ابومحذورہ رضی اللہ عنہ اور ان کے بعد بھی مکہ مکرمہ میں اذان ترجیع سے ہوتی رہی۔ اس لیے اس کا انکار محض مجادلہ ہے۔ درست بات یہ ہے کہ اذان ترجیع اور بغیر ترجیع دونوں طرح ثابت ہے۔ اور صحیحین کی روایات کی بنا پر راجح یہ ہے کہ ترجیع والی اذان کے ساتھ اقامت دوہری اور عام اذان کے ساتھ اقامت اکہری کہی جائے۔ راوئ حدیث: [حضرت عبداللہ بن زید بن عبدربہ رضی اللہ عنہ ] ابو محمد ان کی کنیت ہے۔ انصار کے قبیلۂ خزرج سے تعلق کی وجہ سے انصاری خزرجی کہلائے۔ بیعت عقبہ اور غزوئہ بدر میں شریک ہوئے‘ نیز ان کے علاوہ باقی غزوات میں بھی شریک رہے۔ ہجرت مدینہ کے پہلے سال انھوں نے خواب میں موجودہ اذان کی کیفیت دیکھی تھی۔ اور یہ واقعہ مسجد نبوی کی تعمیر کے بعد کا ہے۔ انھوں نے ۳۲ ہجری میں ۶۴ برس کی عمر میں وفات پائی۔ [حضرت بلال بن رباح رضی اللہ عنہ ] قبیلۂ تیم کے آزاد کردہ غلام تھے۔ قدیم الاسلام ہیں۔ ان کو راہ حق میں بہت اذیتیں اور تکالیف دی گئیں۔ انھیں بھی غزوات بدر و اُحد اور احزاب وغیرہ سبھی میں شرکت کا شرف حاصل ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مؤذن تھے۔ آپ کی وفات کے بعد انھوں نے اذان کہنا بند کر دی تھی اور مدینہ طیبہ چھوڑ کر دمشق میں سکونت اختیار کر لی تھی۔ ایک دفعہ وہاں سے مدینے آئے اور لوگوں کے اصرار پر اذان شروع کی تو کہا جاتا ہے کہ وہ اسے پورا نہ کر سکے۔ اس قدر ان پر رقت طاری ہوگئی کہ روتے روتے ہچکی بندھ گئی۔ ۱۷ھ یا ۱۸ یا ۲۰ ہجری میں ساٹھ سال سے اوپر عمر پا کر فوت ہوئے۔ ان کی کوئی اولاد نہیں تھی۔
تخریج : أخرجه أبوداود، الصلاة، باب كيف الأذان، حديث:499، وأحمد:4 /43، والترمذيٰ، الصلاة، حديث:189، وابن خزيمة: 1 /198، بالأسانيد، وحديث بلال أخرجه أحمد:4 /43 وهو حديث حسن، ابن إسحاق والزهري عنعنا، وللحديث شواهد صحيحة، وحديث أنس أخرجه ابن خزيمة:1 /202، حديث:386. 1. اس حدیث کا پس منظر یہ ہے کہ مدینہ طیبہ میں ہجرت کے پہلے سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے مشورہ کیا کہ نماز باجماعت کے لیے بلانے کا کیا طریقہ ہونا چاہیے۔ بعض نے کہا: نماز کے لیے ناقوس (گھڑیال) بجایا جائے۔ بعض نے بلندی پر آگ روشن کرنے کا مشورہ دیا۔ بعض نے بـوق (بگل) سے کام لینے کا مشورہ دیا لیکن یہ سب مشورے رد کر دیے گئے کیونکہ گھڑیال بجانا عیسائیوں کا، بگل بجانا یہودیوں کا اور آگ جلانا مجوسیوں کا شعار ہے۔ اسی دوران میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مشورہ دیا کہ نمازوں کی طرف بلانے کے لیے اذان دی جائے‘ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو بآواز بلند اَلصَّلَاۃُ جَامِعَۃٌ کہنے کا حکم دیا۔ اسی اثنا میں عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ جو مذکورہ بالاحدیث کے راوی ہیں‘ نے خواب میں دیکھا کہ ایک آدمی ناقوس اٹھائے ہوئے ہے۔ حضرت عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ نے اس سے دریافت کیا: اللہ کے بندے! کیا تم ناقوس فروخت کرتے ہو؟ اس نے پوچھا کہ تم اس سے کیا کرو گے؟ حضرت عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم اس کے ذریعے سے (لوگوں کو) نماز باجماعت کے لیے بلائیں گے۔ اس شخص نے کہا: میں تمھیں اس سے بہتر طریقے سے آگاہ نہ کر دوں؟ حضرت عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ نے کہا: ہاں‘ (ضرور بتائیں ۔) تو اس نے (موجودہ) اذان اور اقامت کے الفاظ انھیں سکھائے۔ یہی خواب حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے نبی ٔاکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیان کیا جسے آپ نے سچا اور صادق قرار دیا۔ 2. اذان میں ترجیع مسنون ہے یا نہیں؟ اس بارے میں ائمہ کی آراء مختلف ہیں: ایک رائے یہ ہے کہ ترجیع ثابت ہے۔ اہلحدیث حضرات کی رائے یہی ہے۔ اور ایک رائے یہ ہے کہ ترجیع جس صحابی سے ثابت کی جاتی ہے اس صحابی کو تعلیم دینا مقصود تھا‘ اس لیے کہ حضرت ابومحذورہ رضی اللہ عنہ جنھیں آپ نے یہ تعلیم دی‘ نے پہلی مرتبہ اذان میں شہادتین أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ اور أَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُولُ اللّٰہِ کو دھیمی اورپست آواز میں ادا کیا تھا‘ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دوبارہ یہ کلمات کہنے کا حکم دیا۔ لیکن یہ تاویل درست نہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے محض سکھلانے کے لیے شہادتین کے الفاظ دوبارہ نہیں کہلوائے بلکہ آپ نے انھیں اذان دینے کا طریقہ ہی یہی سکھلایا۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت ابومحذورہ رضی اللہ عنہ اور ان کے بعد بھی مکہ مکرمہ میں اذان ترجیع سے ہوتی رہی۔ اس لیے اس کا انکار محض مجادلہ ہے۔ درست بات یہ ہے کہ اذان ترجیع اور بغیر ترجیع دونوں طرح ثابت ہے۔ اور صحیحین کی روایات کی بنا پر راجح یہ ہے کہ ترجیع والی اذان کے ساتھ اقامت دوہری اور عام اذان کے ساتھ اقامت اکہری کہی جائے۔ راوئ حدیث: [حضرت عبداللہ بن زید بن عبدربہ رضی اللہ عنہ ] ابو محمد ان کی کنیت ہے۔ انصار کے قبیلۂ خزرج سے تعلق کی وجہ سے انصاری خزرجی کہلائے۔ بیعت عقبہ اور غزوئہ بدر میں شریک ہوئے‘ نیز ان کے علاوہ باقی غزوات میں بھی شریک رہے۔ ہجرت مدینہ کے پہلے سال انھوں نے خواب میں موجودہ اذان کی کیفیت دیکھی تھی۔ اور یہ واقعہ مسجد نبوی کی تعمیر کے بعد کا ہے۔ انھوں نے ۳۲ ہجری میں ۶۴ برس کی عمر میں وفات پائی۔ [حضرت بلال بن رباح رضی اللہ عنہ ] قبیلۂ تیم کے آزاد کردہ غلام تھے۔ قدیم الاسلام ہیں۔ ان کو راہ حق میں بہت اذیتیں اور تکالیف دی گئیں۔ انھیں بھی غزوات بدر و اُحد اور احزاب وغیرہ سبھی میں شرکت کا شرف حاصل ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مؤذن تھے۔ آپ کی وفات کے بعد انھوں نے اذان کہنا بند کر دی تھی اور مدینہ طیبہ چھوڑ کر دمشق میں سکونت اختیار کر لی تھی۔ ایک دفعہ وہاں سے مدینے آئے اور لوگوں کے اصرار پر اذان شروع کی تو کہا جاتا ہے کہ وہ اسے پورا نہ کر سکے۔ اس قدر ان پر رقت طاری ہوگئی کہ روتے روتے ہچکی بندھ گئی۔ ۱۷ھ یا ۱۸ یا ۲۰ ہجری میں ساٹھ سال سے اوپر عمر پا کر فوت ہوئے۔ ان کی کوئی اولاد نہیں تھی۔