كِتَابُ الصَّلَاةِ بَابُ الْمَوَاقِيتِ ضعيف وَعَنْ أَبِي مَحْذُورَةَ - رضي الله عنه - أَنَّ النَّبِيَّ - صلى الله عليه وسلم - قَالَ: ((أَوَّلُ الْوَقْتِ رِضْوَانُ اللَّهُ، وَأَوْسَطُهُ رَحْمَةُ اللَّهِ; وَآخِرُهُ عَفْوُ اللَّهِ)). أَخْرَجَهُ الدَّارَقُطْنِيُّ بِسَنَدٍ ضَعِيفٍ جِدًّا. وَلِلتِّرْمِذِيِّ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ عُمَرَ نَحْوُهُ، دُونَ الْأَوْسَطِ، وَهُوَ ضَعِيفٌ أَيْضًا.
کتاب: نماز سے متعلق احکام و مسائل
باب: اوقات نماز کا بیان
حضرت ابومحذورہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اول وقت (میں نماز پڑھنا) رضائے الٰہی کا موجب ہے۔ اور درمیانے وقت میں (ادائیگی ٔنماز) رحمت الٰہی کا سبب ہے۔ اور آخر وقت (میں ادا کرنا) اللہ تعالیٰ سے معافی کا باعث ہے۔‘‘ (اسے دارقطنی نے نہایت ضعیف سند سے روایت کیا ہے اور ترمذی میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث بھی اسی طرح ہے لیکن اس میں لفظ [أَوْسَط] مذکور نہیں اور وہ بھی ضعیف ہے۔)
تشریح :
1. یہ دونوں احادیث انتہائی ضعیف ہیں۔ ان پر اعتماد مناسب نہیں۔ جہاں تک سنن دارقطنی کی روایت کا تعلق ہے تو وہ روایت یعقوب بن ولید کے واسطے سے مروی ہے۔ امام احمد رحمہ اللہ کا اس کے بارے میں قول ہے کہ یہ بڑے بڑے دروغ گو لوگوں میں سے ہے۔ اور ابن معین نے بھی اسے جھوٹا اور کذّاب قرار دیا ہے۔ امام نسائی رحمہ اللہ نے تو اسے نظر انداز ہی کر دیا ہے۔ اور امام ابن حبان نے کہا ہے کہ یہ حدیث وضع کیا کرتا (خود گھڑتا اور اپنی طرف سے بناتا) تھا۔ اور اس کی سند میں ابراہیم بن زکریا بجلی بھی موجود ہے جسے متہم قرار دیا گیا ہے۔ رہی ترمذی میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت تو اس میں بھی یعقوب بن ولید موجود ہے۔2.محدثین ناقدین کے نقد و جرح کے بعد یہ حدیث قابل اعتنا ہی نہیں رہتی۔ راوئ حدیث: [حضرت ابومحذورہ رضی اللہ عنہ ] ان کا نام سمرہ یا اوس بن مِعْیَر (میم کے نیچے کسرہ‘ عین ساکن اور یا پر فتحہ ہے) جہمی ہے۔ مؤذن رسول تھے۔ فتح مکہ کے موقع پر اسلام قبول کیا۔ مکہ میں قیام پذیر ہو گئے۔ نماز پنجگانہ کی اذان دیتے تھے۔ ۵۹ ہجری میں وفات پائی۔
تخریج :
أخرجه الدار قطني: 1 /250* إبراهيم بن زكريا ضعيف وحديثه منكر، وقال ابن عدي: "حدث بالبواطيل" ، وحديث ابن عمر أخرجه الترمذي، حديث:172 وفيه يعقوب بن الوليد، كذبه أحمدوغيره.
1. یہ دونوں احادیث انتہائی ضعیف ہیں۔ ان پر اعتماد مناسب نہیں۔ جہاں تک سنن دارقطنی کی روایت کا تعلق ہے تو وہ روایت یعقوب بن ولید کے واسطے سے مروی ہے۔ امام احمد رحمہ اللہ کا اس کے بارے میں قول ہے کہ یہ بڑے بڑے دروغ گو لوگوں میں سے ہے۔ اور ابن معین نے بھی اسے جھوٹا اور کذّاب قرار دیا ہے۔ امام نسائی رحمہ اللہ نے تو اسے نظر انداز ہی کر دیا ہے۔ اور امام ابن حبان نے کہا ہے کہ یہ حدیث وضع کیا کرتا (خود گھڑتا اور اپنی طرف سے بناتا) تھا۔ اور اس کی سند میں ابراہیم بن زکریا بجلی بھی موجود ہے جسے متہم قرار دیا گیا ہے۔ رہی ترمذی میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت تو اس میں بھی یعقوب بن ولید موجود ہے۔2.محدثین ناقدین کے نقد و جرح کے بعد یہ حدیث قابل اعتنا ہی نہیں رہتی۔ راوئ حدیث: [حضرت ابومحذورہ رضی اللہ عنہ ] ان کا نام سمرہ یا اوس بن مِعْیَر (میم کے نیچے کسرہ‘ عین ساکن اور یا پر فتحہ ہے) جہمی ہے۔ مؤذن رسول تھے۔ فتح مکہ کے موقع پر اسلام قبول کیا۔ مکہ میں قیام پذیر ہو گئے۔ نماز پنجگانہ کی اذان دیتے تھے۔ ۵۹ ہجری میں وفات پائی۔